حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
الغرض نبوت سے جو علم ان کو ملا تھا اس سے آپ کی یہی عاجزیاں ہیں جن کی طرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اشارہ فرمایا۔ اللہ اکبر زہد کا تقاضا ہے کہ شادی بھی نہ ہو گھر بھی نہ ہو در بھی نہ ہو، کچھ بھی نہ ہو۔ اور شادی کا تقاضا ہے کہ دنیا کے تمام سازوسامان ہوں، یہ بھی ہو وہ بھی ہو؛ ابوذرؓ ہی کا کلیجہ تھا کہ ان چٹانوں کو سینے پر رکھا، اور بغیر کسی تشویش کے دونوں کو جمع کر کے دکھایا۔ ؏ بر لب کوثر بداغ تشنگی خومی کنم کا ایک حیرت انگیز نظارہ حضرت ابوذرؓ کی زندگی میں نظر آتا ہے۔آپ کا گھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے راہبانہ صحرا نوردیوں سے روکا بھی تھا۔ اور اس دنیا کو ایک گزرگاہ اور راستہ سے تشبیہ دے کر اپنے آپ کو ایک مسافر بھی قرار دیتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ میری مثال دنیا میں اس مسافر کی مانند ہے جو کسی چھاؤں کے نیچے تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کھڑا ہو گیا ہو۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں ارشادوں میں عملی تطبیق اس طرح دی تھی کہ آپ جب تک مدینہ منورہ میں رہے زیادہ تر اِدھر اُدھر پڑ رہتے۔ کبھی مسجد میں کبھی صفہ میں سو جاتے اور اس کے بعد آپ جہاں کہیں رہے کمل کے خیمہ میں رہے۔شام کے غدار شہر دمشق میں بھی جب تک آپ رہے مشت صوف کے جھوپڑے ہی میں رہے۔ ۱؎ اپنے بال بچوں کے ساتھ اسی قسم کے خیموں میں اپنی زندگی گزار دی۔ حتیٰ کہ جس مکان میں آپ نے اپنی آخری سانس پوری کی اس وقت بھی دیکھنے والوں نے یہی دیکھا کہ صوف کے معمولی خیمہ میں ------------------------------ ۱؎ طبری کامل وغیرہ