حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
دل میں چمک سکتی ہیں اور کیا اس کے بعد پھر کبھی کوئی مؤمن باللہ جاہ و عزت بقاء و نمود کے لئے کرہ ارض پر کوئی فتنہ اٹھا سکتا ہے آخر جب کہ ہم میں ہر ایک خطاوار ہے تو تقویٰ و طہارت پر کون دیوانہ مغرور ہو سکتا ہے حتیٰ کہ اس کی شہرت وصیت کی جدوجہد میں مبتلا ہو۔ جب کہ ارباب دول کی تمام تر ثروتیں صرف خدائے قیوم کے قبضۂ اقتدار میں ہیں تو کیسہ ہائے شر پر سینہ تاننے والا اگر احمق نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ ہمارے تمام اکابر اسافل، بڑے اور چھوٹے مل کر بھی خدا کی بارگاہ جلال میں پر پشتہ کی برابر اضافہ نہیں کر سکتےتو پھر انسان مشتے از خاک انسان کس پر اکڑتا ہے۔ اس کی شان بے نیازی کا جب یہ حال ہے کہ وہ ہدایت و رشد کے باب میں بھی صرف توفیق اور اپنے ہاتھ کو کام کرنے والا بتاتا ہے۔ تو ایک واعظ، و مصلح، کس بنا پر اپنے مساعی کو قابل قدر ہستی سمجھ سکتا ہے۔ آہ کہ سب کچھ اسی کا ہے، اور ہم محض محتاج و فقیر ہیں تو پھر یہ خود بینی کیسی یہ زعم و پندار کیوں؟ یہی وہ حکم و مواعظ تھے جس نے اخیر میں روح ابوذری پر زہد عیسوی کا نقشہ کھینچ دیا بہر کیف یہ سب کچھ تھا اور اس سے بھی زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اطہر و قلب مزکی سے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کی زہدانہ فطرت کو اوبھارتے رہتے تھے۔ لیکن آپ کی تمام تعلیم و ارشاد میں سب سے زیادہ خصوصی نظر اس حصہ پر ڈالنی چاہئے جہاں اسلام اپنی امتیازی شان کے ساتھ تمام ادیان