حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
طبقات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد دیر تک دونوں میں کچھ سرگوشیاں بھی ہوتی رہیں حتیٰ کہ کبھی کبھی آواز بلند بھی ہوجاتی تھی۔۱؎ آخر جب یہ مجلس راز و نیاز ختم ہو گئی اور خدا جانے کہ کن باتوں پر ہوئی کہ ادھر حضرت عثمانؓ کا سینہ بھی اسرار نبویہ کا گنجینہ تھا۔ ادھر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ پوچھنے والوں سے فرما دیا کرتے تھے کہ کیا پوچھنا چاہتے ہو، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسرار دریافت کرنا چاہتے ہو تو میں کبھی نہیں بتا سکتا۔‘‘۲؎ جہاں دونوں طرف یہ حال ہو وہاں ما و شما کی رسائی اور وہ بھی سرگوشیوں کے موقع پر جو کچھ ہو سکتی ہے، وہ معلوم، ہاں! طبقات ہی سے اس قدر اور بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد جب حضرت ابوذرؓ اٹھے تو باچھیں کھلی ہوئی تھیں اور مسکراتے ہوئے باہر نکلے، لوگوں نے پوچھا بھی، کہ امیر المؤمنین اور آپ سے کیا باتیں ہوئیں۔ لیکن آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ صرف اس قدر فرماتے ہوئے روانہ ہو گئے۔ ’’ کہ سننے والا فرماں بردار ہوں، اگر مجھے وہ حکم دیں کہ تم عدن یا صنعاء چلے جاؤ اور مجھ میں طاقت چلنے کی باقی رہے گی تو میں اسی وقت چلا جاؤں گا۔ ‘‘ ۳؎مدینہ سے کوچ اس کے بعد آپ نے مدینہ منورہ کو بھی چھوڑ دیا لیکن کیوں چھوڑا۔ عام مؤرخین تو لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو جلاوطن کر دیا تھا مگر اس باب میں سب سے زیادہ موثق کتاب ------------------------------ ۱؎ طبقات ابن سعد ۱۶۷ ج ۴۔ ۱۲ ۲؎ مسند احمد ۱۲ ۳؎ طبقات ابن سعد ۱۲