حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
قسم کے ظالم و عیش پسند بادشاہ اس زمانہ میں کب موجود تھے، کہ وہ تو خلفائے صدیقین و امرائے عادلین مثل ابو بکر و عمر و عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عہد تھا۔ حافظ ابن حجر کا خیال ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دراصل یہ مطلب نہ تھا کہ خود اپنے مال کو جمع کرنے میں بھی انسان داغا جائے گا۔بلکہ آپ کا یہ فتویٰ ان لوگوں کی حد تک محدد تھا جو دوسروں کا مال لے کر جمع کرتے ہوں اور جب اصلی مالک اس کا مطالبہ کرتا ہے تو ہاں نہیں میں ٹال دیتے ہیں۔ اس لئے اپنے مال پر کسی کی تعذیب کیوں ہو۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کا یہ فتویٰ تھا کہ اگر زکوٰۃ نکالنے کے بعد ہمارے پاس ایک پہاڑ کے برابر سونا ہو تو ہمیں پھر کوئی خوف نہیں۔۱؎ حافظ نے اس کے بعد ایک اور توجیہہ بیان کی ہے چوں کہ وہ بجنسہ قاضی عیاض کی تاویل کا ترجمہ ہے اس لئے اسے قلم انداز کرتا ہوں۔ناچیز کی رائے اگر امام نووی کو قاضی عیاض پر اور قاضی عیاض کو اپنے گزشتہ مؤلفین و مصنفین پر نکتہ چینی کا حق حاصل ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ مجھے اگر اعتراض کا نہیں تو کم سے کم اپنے خیالات کے اظہار سے کیوں روکا جائے گا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ میں آیندہ لکھوں گا اس میں غلطی کی گنجائش نہیں۔ دیوانہ ہے جو ایسا سمجھتا ہے فلینظر الانسان مِمَّ خلق کے بعد اس قسم کی متکبرانہ دعاوی کا حق کس کو حاصل ہے؟ بہرحال حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہدیٰ و روشن طرز و طریقہ روایات، و اقوال سے میں جو کچھ سمجھا ہوں اسے پیش کئے دیتا ہوں۔ ------------------------------ ۱؎ فتح الباری شرح البخاری سے یہ تفصیلات نقل کئے گئے ہیں