حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
کر دیا تھا۔ بہت ممکن تھا کہ استقلال کے پاؤں اس وقت ڈگمگا جاتے۔ آپ کی آن ٹوٹ جاتی، لیکن یہ سرمستی ایسی نہ تھی جو بھوک کی ترشی سے اتر جاتی۔ آپ نہایت اطمینان کے ساتھ اُٹھتے اور زمزم کی چند چلوؤں سے تھوڑی دیر کے لئے اس بھوک کو بجھا دیتے پھر اگر ستاتی تو اس سے زیادہ جو اب آپ کی طرف ۳۰ دن کے عرصے میں اس اندورنی مطالبے کو کبھی نہیں دیا گیا کہ ڈول ﴿١﴾ کھنچچا اور چند گھونٹ حلق کے پار کرلئے گئے اور بس۔ غرض کہ اسی طرح جب صبح کا آفتاب طلوع ہوتا تھا تو حضرت ابو ذر کی نگاہیں اس کی روشنی میں صرف اسی آفتاب کو تلاش کرتی تھیں۔ جس سے روحوں کی رات دن ہوتی تھی اور رات ہوتی تو اس کی اندھیریوں میں بھی آپ کی اسی تارے کو ڈھونڈتیں جس نے دنیا کے سینکڑوں بھٹکے ہوئے قافلوں کو سیدھی پگڈنڈی پر ہمیشہ کے لئے لگا دیا۔ انتظار تھا جو ختم نہیں ہو رہا تھا ۔ فراق تھا جس کی جگر سوزی آناً فاناً بڑھ رہی تھی ۔ بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی ۔قریش کا ظالمانہ برتاؤ ایک دن اسی درمیان میں آپ کو خیال گزرا کہ جس کو ڈھونڈھتا ہوں اگر وہ نہیں ملتے تو چلو! اس کے کسی غلام ہی سے پتہ پوچھیں غیرت کا تقاضہ اگر ہے تو صرف کفاروں تک محدود ہے۔ لیکن اگر ان کی جماعت کا کوئی آدمی مل جائے تو اس سے پوچھنے میں کیا مضائقہ؟ غرض یہ سوچ کر، تاک میں لگے رہے۔ اتفاق سے ایک مجہول الحال شکستہ آدمی حرم میں داخل ہوا۔ چوں کہ فلاکت زدہ تھا سراغنہ قریش نے شاید ------------------------------ ١۔ مسلم و طبقات