حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
کہ باوجود ثروت کے یہ اصحاب صُفّہ میں شریک ہو گئے تھے۔ جو محض مسکینوں کی جماعت تھی، خطرہ تھا کہ جب لوگوں کو یہ علم ہو جائے گا کہ صفہ والوں کے پاس روپے رہتے ہیں تو مستحق طلبہ بھی امداد سے محروم ہوجائیں گے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ میں اس تاویل کو مانتا ہوں لیکن میرا مقصد یہ ہے کہ جب حضرت ابوذر ؓ کے سامنے اس قسم کے واقعات متواتر پیش ہوئے اگر اس کے بعد انھوں نے ذہب و فضہ کے متعلق گزشتہ رائے قائم کی تو یہ کوئی مستبعد اور دور از قیاس نہیں ہے گو عامہ ارباب فتاویٰ و اصحاب علم کی یہ رائے نہو۔حضرت معاویہؓ اور حضرت ابوذرؓ کا مباحثہ مسئلہ کنز پر خلافت عثمانی کا زمانہ تھا۔ شام کے ناظم و عامل حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ اتفاق سے ان کے عہد میں اس مسئلہ کا بہت چرچا ہوا عام طور سے ارباب دول حضرت ابوذرؓ سے برہم ہو رہے تھے، مزاج میں آپ کے مجذوبیت بھی تھی۔ ممکن ہے کہ کسی پر کچھ سختی بھی کی ہو، اگرچہ کسی روایت سے یہ ثابت نہیں۔ تاہم اتنا معلوم ہوتا ہے کہ دمشق میں اس مسئلہ کی بدولت ایک ہل چل مچی ہوئی تھی۔ جن لوگوں نے اپنی بیویوں اور لونڈیوں کو سونے اور چاندی سے لاد دیا تھا یقینًا ان کو حضرت ابوذرؓ کا یہ فتویٰ گراں گزرتا ہوگا کیونکہ حضرت ابوذرؓ اولًا اسے کنز کی مد میں داخل کر کے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوں گے ورنہ کم از کم زکوٰۃ کی تاکید تو ضرور کی جاتی ہوگی پھر جو لوگ کہ زیوروں پر زکوٰۃ فرض نہیں سمجھتے تھے ( جیسا کہ بعض علماء کی رائے ہے مثلًا ابن عمر وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم) ان کو یہ مسئلہ برا معلوم ہوتا ہوگا۔ اور دوسروں ہی کو کیا خود امیر معاویہؓ کو وہ کب بخشتے تھے لکھا ہے کہ جب