حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں پر زہد کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ یکایک اپنے گھر سے غائب ہوجاتے ہیں۔ بیوی بال بچے اقربا کی خبرگیری کا بالکل خیال نہیں کرتے حالانکہ یہ حرکت اس مقصد کے بالکل خلاف ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا۔ انسان دنیا میں چند سال کے لئے جس کی مدت اس زمانہ میں ساٹھ ستر سال سے شاید زیادہ نہیں، محض آزمایش کے لئے اوتارا گیا ہے اور اصلی آزمایش یہی ہے کہ تمام فتنوں میں مبتلا ہو کر بھی اپنے خالق ذوالجلال کو نہیں بھولتا، حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں۔ ’’ مجھے میرے محبوب نے وصیت کی کہ میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرتا رہوں، اگرچہ اسے پورے طور پر انجام نہ دے سکوں ۱؎ ( کہ یہ بہت مشکل ہے۔ بہر کیف جس قدر بضاعت ہو۔ اسی میں سب کے ساتھ سلوک کرتا رہے ) ‘‘جذب و سرمستی اور اسکی حقیقت تعلیم و تزکیہ کا یہی زرین سلسلہ تھا جو روزبروز حضرت ابوذرؓ کے اصل جوہر کو چمکا رہا تھا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر لحظہ ہر وقت، حضرت ابوذرؓ کی حرکت و سکون پر نظر رکھتے تھے اور ادھر حضرت ابوذرؓ کا یہ حال تھا کہ جو کچھ کہا جاتا اور جس وقت کہا جاتا فورًا ان کی روح اسے جذب کر لیتی اور اس سختی کا ساتھ قبول کرتی کہ پھر دنیا کی کوئی قوت اس رنگ کو کسی طرح مٹا نہیں سکتی تھی۔ یہ ممکن تھا کہ وہ خود اپنی ہستی مٹا بیٹھتے لیکن یہ بالکل ناممکن ہو رہا تھا کہ جو رنگ ان پر چڑھایا گیا تھا وہ زائل تو کیا میلا بھی پڑتا ------------------------------ ۱؎ مسند احمد