حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
ہو گئے اور نہایت کرخت لہجے میں فرمانے لگے ’’ خدا تجھے بخشے دنیا کو عظمت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے، کیا میرے جسم پر یہ چادر نہیں ( یعنی گو کمبل ہی کی ہے، لیکن ہے تو اور اس شخص کے پاس تو یہ بھی نہ تھی) اور کیا ایک چادر نماز پڑھنے کے لئے میرے پاس نہیں۔‘‘ پھر فرمایا ’’ اے شخص میرے پاس بکریاں ہیں جن کا میں دودھ پیتا ہوں اور میرے پاس گدھے ہیں جن پر بازار کی چیزیں خرید کر لاتا ہوں، غلام ہیں جو میری خدمت کرتے ہیں اور کھانے پکانے میں میری مدد کرتے ہیں۔ اور ہاں عید۔ بقر عید کے لئے ایک عبا بھی میرے پاس ضرورت سے زیادہ ہے ۔ پس تم خود انصاف کرو کہ ان نعمتوں سے بڑھ کر بھی کوئی نعمت ہوسکتی ہے؟ بلکہ جو عبا میرے پاس زاید ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے اس کا محاسبہ نہ ہو۔ ۱؎بستر مبارک عمومًا سونے لیٹنے بیٹھنے کے لئے ٹاٹ استعمال فرمایا کرتے تھے، کسی نے عرض کیا کوئی نرم گدّا اپنے لئے کیوں نہیں بنوا لیتے ہاتھ اٹھا کر فرمانے لگے۔ ’’ خدایا دنیا میں تو نے جو چیزیں اپنی مرضی سے عطا کی ہیں، میں اس کے متعلق بھی مغفرت کا طلب گار ۲؎ ہوں‘‘ غالبًا مطلب یہ تھا کہ نعمتوں کا لینا آسان نہیں۔ نعمت کے بعد اس کے حقوق جو منعموں پر عاید ہوتے ہیں، مشکل ہے بھول جانے والے ناقدر انسان کا ان حقوق سے عہدہ برا ہونا مشکل ہے، کس حد تک شکر ادا کر سکا۔ اپنے دوسرے ہم جنسوں، قرابت داروں، عزیزوں کے جو حقوق اس میں پیدا ہوگئے۔ ------------------------------ ۱؎ طبقات ابن سعد حلیۃ الاولیاء ص ١۳۲