حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
بوندیں ٹپکائیں۔ اور اخیر میں یوں سمجھو! کہ وہ جو ہمیشہ گرتوں کو سنبھالتا اور ڈوبتوں کو تِراتا ہے مردے سے زندوں کو اٹھاتا ہے۔ اسی کا دست کرم ظاہر ہوا اور کھل گیا کہ یہ جو کچھ ہے حرص کی غلامی اور ہوا و ہوس کی پرستاری ہے۔ اِدھر خیالات میں یہ انقلاب عظیم پیدا ہوا۔ شر خیر کے دریا کو جنبش میں لے آیا کہ اس کے بعد ہی جیسا کہ ہر تائب کو توبہ کے بعد ہوتا ہے کہ جرائم و معاصی کی مفصل فہرست آنکھوں کے سامنے کھل گئی۔ گزشتہ تعدّیوں، خونریزیوں کے خیال نے ہوش اڑا دئے۔ آخرت کے خیال نے دل میں ہلچل ڈالدی۔اسلام سے پہلے عبادت خدا کا خیال عرب مشرک ضرور تھے دیوتاؤں اور دیویوں پر انھیں یقینًا بھروسہ تھا، اور بنی غفار بھی تمام اعمال ضلالت و خبث میں ان کے دوش بدوش تھے، لیکن قرآن و حدیث ایام و اشعار کی تتبع سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو انھوں نے سرے سے بھلا نہیں دیا تھا، اگر ہم کہیں کہ وہ اپنے تمام معبودوں میں خداوندتعالیٰ کو سب سے بڑا سب سے زیادہ قدرت و حکمت والا مانتے تھے تو کبھی بھی غلط نہیں ہو سکتا۔ بتوں کو انھوں نے محض سفارت و شفاعت کا عہدہ دے رکھا تھا اپنی معمولی حاجات یا صرف دنیوی ضروریات کو ان کے آگے پیش کرتے تھے ورنہ اگر کوئی امر مہم پیش آجاتا تو اس وقت ان کی پیشانی بھی خدائے واحد ہی کے آگے جھک جاتی تھی۔ فاذا رکبوا فی الفلک دعووا جب کشتیوں پر سوار ہوتے ہیں تو