حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
جری بنا دیا تھا، کبھی کبھی زیادہ ولولہ اٹھتا تو تن تنہا راتوں کو قبیلوں پر جا پڑتے، اور عرب کی بہادر گلہ بانوں کو للکار کر تہہ تیغ کرتے ہوئے اونٹوں کو بھگا کر اکیلے اپنے قبیلے تک لے آتے، کبھی خیال گزرتا تو گھوڑے کی پیٹھ پر بلا کسی رفیق کے کاروانوں کو جاکر لوٹ کھسوٹ لیتے تھے دیکھنے والوں کا بیان ہے ان کا حملہ پیادہ پا ہوتا تو عجیب چستی و چالاکی سے قافلوں میں گھستے تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بپھرا ہوا شیر بکریوں پر جا پڑا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اپنی اس قزاقانہ مساعی پر قوم کے بزرگوں سے خوب خوب دادیں ملیں اور چونکہ جوان طبیعتوں کی اشتعال پذیری کیلئے اس سے زیادہ مؤثر اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی، اسی وجہ سے انہوں نے راہزنی میں نمایاں حصہ لینا شروع کیا ہوگا اور معاملہ میں بہ نسبت اور لوگوں کے ان کی دست درازیاں حد سے گزر گئی ہونگی۔راہزنی سے توبہ : اور میرے نزدیک یہی زیادتی شاید ان کیلئے مفید ہوئی، غالبا ان کی سلیم فطرت بچوں کے شور و بکاء، عورتوں کی گریہ و زاری سے اخیر میں متاثر ہوئی، ناممکن ہے کہ ڈھاڑیں مار مار کر بیچاری عورتیں ان کے قدموں پر روز و شب تڑپتیں، اور وہ دل جو قدرت نے ان کے سینے میں ودیعت فرمادیا تھا ان سے نہ پگھلتا. آخر پگھلا پسیجا کہ آپ پر اصلی فطرت غالب آگئی، اور صحبت کے برے آثار جو طبیعی نہ تھے مقہور ہوگئے، آپ کو اپنی ظالمانہ حرکتوں پر سخت ندامت ہوئی عقل نے بھی اندرونہ دل میں رافت اور رحمت کی