حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اور اسلام پیش کیا۔ آپ کی والدہ نے سعادت مند بیٹوں کو مسلمان دیکھ کر فرمایا کہ مجھے بھی اس دین سے کوئی نفرت نہیں ( دیکھو) میں بھی مسلمان ہوئی اور جن چیزوں کی تم دونوں نے تصدیق کی میں بھی اس کی تصدیق کرتی ہوں۔ وانذر عشیرتک الاقربین اپنے قبیلے کے قریب لوگوں کو خدا سے ڈراؤ کا پہلا فرض گویا پورا ہوا۔ دونوں بھائیوں نے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے؟ روایات کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا کہ قریش مجھ پر بہت ظلم کرچکے ہیں اس عرصہ میں انھوں نے مجھے بہت ستایا ہے مجھے عقلًا اور قانونًا حق پہنچتا ہے کہ ان سے انتقام لوں اور ان شاء اللہ اسی انتقام کے ذریعے سے مقصد میں بھی کامیابی ہوگی۔عسفان کی گھاٹیوں میں جا کر چھپنا رائے اس پر مستقر ہو گئی۔ والدہ اور بھائی کے ساتھ آپ عسفان کی ایک گھاٹی۱؎ ( جو تجار قریش کے راستے میں واقع تھی) میں جا کر ٹھہر گئے اور معمول کر لیا کہ اس راہ سے جو قافلہ قریش کا گزرے گا اسے لوٹ لیتے۔ جب ان پر قبضہ ہو جاتا تو اس کے بعد فرماتے اگر تم خدا کی یکتائی پر گواہی دیتے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرتے ہو تو سارا مال ابھی واپس کر دیا جائے گا اور اگر انکار کرو گے تو یاد رکھو ایک حبہ کے مستحق نہیں ہوسکتے۔ قریش آپس میں مشورہ کرتے کہ وہی ابوذرؓ (یعنی جو مکہ میں عام طور سے مشہور ہے اور اس پر وہاں بہت ظلم ہوئے ہیں) ایسا کہتا ہے کیا کرنا چاہئے۔ ------------------------------ ۱؎ طبقات صحیح مسلم میں اس گھاٹی کا نام ثنیّۃ غزال بتایا گیا ہے