حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
جب خطبہ شروع ہوچکتا ہے حالانکہ تبکیر یعنی سویرے آنے کی جمعہ کی نماز میں سخت تاکید ہے اور عمومًا عہد نبوت بلکہ خلافت راشدہ میں بھی تاخیر کرنے والوں سے باز پرس ہوتی تھی۔ اس کے سوا اگرچہ قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت ابوذرؓ کی یہ گفتگو نماز میں ہوئی لیکن حضرت اُبیّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمانا۔ مالک من صلاتک الا ما لغوت تم کو اپنی نماز سے صرف لغو گوئی ملی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لغو گائی نماز میں واقع ہوئی تھی۔ نیز حضرت ابوذرؓ کا یہ کہنا کہ کنت بجنب اُبیّ ( میں اُبیّ کے پہلو میں تھا) بہ ظاہر اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ نماز ہی کا ہے اور نماز کا نہ بھی ہو تو خطبہ میں ہونا تو اس کا قطعی ہے۔ اور کلام کے عدم جواز کا حکم جس طرح نماز میں ہے خطبہ میں بھی ہے۔ خود حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز جمعہ کے فضائل بیان کرتے ہوئے ما لم یلغ ۱؎ ( لغو گوئی سے جب تک پرہیز نہ کرتا رہے) کی قید لگاتے تھے۔ مگر باوجود ان تمام باتوں کے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام امور کے مرتکب ہوئے اور بارگاہ نبوت سے اگرچہ حضرت اُبیّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتویٰ کی توثیق ہوئی لیکن ابوذرؓ کو بھی کچھ سمجھایا گیا۔ کوئی سرزنش کی گئی۔ کچھ پوچھا گیا۔ روایت اس سے ساکت ہے۔ ایسی صورت میں بجز اس کے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ابوذرؓ جس حال میں تھے اس میں ان امور کی گنجایش تھی۔ واللہ اعلم بالصوابامامت کے لئے پیش قدمی قطع نظر اس کے کہ شرعًا بھی اس کا حکم ہے کہ کسی دوسرے کی مسجد یا دوسروں کے گھر میں بغیر اس ------------------------------ ۱؎ مسند احمد ۴۷ ج ۳