حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
قبائل غفار و اسلم تو اپنے خیمہ گاہوں کی طرف واپس لوٹے اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور ﷺ کا دامن تھام لیا۔ اور اس مضبوطی سے تھاما کہ پھر کبھی الگ نہ ہوئے۔امارت مدینہ روز بروز آپؓ کا اقتدار و اعزاز دربار نبوی میں بڑھ رہا تھا حتیٰ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ ذات الرقاع ۱؎ میں تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ کا امام آپؓ ہی کو بنایا۔ اور نہ صرف آپ ہی امیر ہوئے بلکہ آپؓ کے صدقہ میں غفاریوں کو بھی کبھی کبھی یہ عہدہ ملا مثلًا غزوہ دومتہ الجندل کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سباع بن عرفتہ الغفاری کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا تھا ۲؎ردافت کی عزت عرب میں عام طور سے دستور تھا کہ جب اونٹ پر سوار ہوتے تو اپنے کسی خاص آدمی کو اپنا ردیف بنا لیتے تھے جو سوار کی کمر تھام کر پیچھے بیٹھتا، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم بھی کبھی کبھی کسی کو اپنا ردیف بناتے تھے۔ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ کے ردیف آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی افضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ردافت ایک بڑا عہدہ جلیل تھا۔ جس شخص کو آپ ﷺ یہ عزت دیتے تھے ------------------------------ ۱؎ اس جنگ کا نام ذات الرقاع ( یعنی لتوں والی لڑائی ہے) وجہ یہ تھی کہ راستہ نہایت سنگلاخ اور پتھریلا تھا جس سے اکثروں کے پاؤں پھٹ گئے تھے۔ لوگوں نے اس لئے پاؤں میں لتے باندھ لئے تھے چوں کہ ذات الرقاع صحیح روایات کی بنا پر خندق کے بعد واقع ہوا ہے۔ اس لئے حضرت ابوذرؓ کا امیر مدینہ ہونا کوئی بعید نہیں والتفصیل فی زاد المعاد ۲؎ زاد المعاد ج ۱