حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
بہر کیف شیفتہ نادیدہ کا مکہ میں داخلہ ہوا اس دیار میں آپ کی کسی سے جان پہچان کب تھی سامنے حرم نظر آیا۔ سیدھے اسی طرف تشریف لے گئے اور ایک بے کس مسافر کی طرح خدا جانے کس کے انتظار میں وہیں کہیں کونے میں پڑ رہے۔مکہ مکرمہ کے تیس ۰۳ دن ۔ حرم میں قریش کے لوگ عموماً اکثر ہی آتے جاتے رہتے تھے اور ہوسکتا ہے کہ حضرت ابو ذر غِفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہٗ بہت جلد کسی سے دریافت کرکے اس آستانے تک پہنچ جاتے جس کے لئے قبیلہ غفار سے کھنچ کر وادی بطحٰی اور وہاں سے حرم تک لائے گئے لیکن یہ طبع غیور کو گوارا نہ تھا کہ اس احسان کو جس سے زیادہ گرانبار احسان ممکن نہیں بت پرستوں کے وسیلے سے سر پر رکھا جائے۔ بخاری میں ہے۔ فالتمس النبی صلی اللّٰه علیه وسلم و کرہ ان یسال عنه نبی کریم صلی اللّہ علیہ وسلم کو خود ڈھونڈھا مگر اس کو ناپسند کرتے تھے کہ کسی سے پوچھیں ۔ آپ کو یقین تھا کہ وہ مجھ سے چھپ نہیں سکتے، نگاہیں تاڑیں گی، دل پہچانے گا۔ اسی تلاش میں دن گزرتے جاتے تھے لیکن کوئی پرواہ نہیں حتیٰ کہ مقل کے دانے جو کچھ ساتھ تھے وہ بھی ان کے پاس نہیں رہے زنبیل خالی تھی۔ گرہ میں دھیلا تک نہیں تھا۔ بھوک نے حضرت ابوذر کو بے چین ------------------------------ بقیہ سلسلہ گزشتہ) " چودھویں صدی مسلمانوں کی مصیبتوں کی شاید آخری صدی ہے نہ ایسی مصیبت اس سے پہلے آئی اور نہ انشاء اللّٰہ آیندہ اس کی توقع غیر تو غیر خود اپنے گھر کے لوگ اسلام اور شعائر اسلام کے بدم و بربادی میں دنیائے اسلام کے ہر گوشہ میں منہمک نظر آتے ہیں۔ درد کی یہی داستان تھی جسے لیکر گیلانی کا فقیر دنیا کی سب سے بڑی ڈیوڑھی کے آگے حاضر ہوا تھا۔ عرض کیا گیا تھا۔