حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
دیکھے اور رشک و غبطہ کی موجیں دلوں سے اچھل اچھل کر نجات کی راہیں ڈھونڈھنے والوں کو تڑپائیں۔ سب سے پہلی منزل کے دہانہ پر غفار کے سب سے بڑے انسان کو لایا گیا قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد اللہ بن مسعودؓ اور لوگوں کے ساتھ قبر میں اترے۔ اتر کر اس سرچشمہ صدق و امانت کو جس سے زیادہ سچی زبان والے انسان پر آسمان نے کبھی سایہ نہیں ڈالا تھا۔ اور نہ جس سے زیادہ صدیق و راست باز لہجہ کو زمیں نے اپنی پشت پر کبھی اٹھایا تھا۔ ربذہ کی ایک کنج عافیت اور شکم زمین میں ہمیشہ کے لئے مستور و مخفی کر دیا گیا اور وہیں آج تک موجود و مودع ہے عام زیارت گاہ ہے۔ پس جو تنہا ہی چلتا تھا۔ تنہا ہی رہتا تھا۔ وہ تنہا ہی عرصہ بلا و آزمائش سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا، اور ربذہ کے صحرأ میں تنہا ہی سویا ہوا ہے تا اینکہ جب اٹھنے کا دن آئے تو وہ اس وقت بھی تنہا ہی اٹھے۔ حقیقی جذب و سرمستی کا چراغ گو اس کے بعد گل ہو گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی جہاں کہیں اس کی کچھ روشنی پائی گئی یا اس وقت بھی پائی جاتی ہے وہ اسی کے فیض ریز شعاعوں کا نتیجہ ہے اور آیندہ عیسوی زہد و ورع کا ہدی محمدی صلی صاحبہا الف الف صلوٰۃ و تحیۃ کے ساتھ جہاں کہیں بھی جمع ہوئے وہ اسی اجتماع کا اثر جاری ہے فرضی اللہ تعالیٰ عنہ و عن الذین اتبعوہ باحسان۔حضرت ابن مسعودؓ کی روانگی اور آپ کے اہل و عیال کا انتظام الغرض قضا و قدر نے جو کچھ چاہا وہ ہوا دفن کرنے کے بعد حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اپنے رفقأ کے ساتھ با چشم تر آپ کے