حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
حضرت ابوذرؓ نے یہ سن کر فرمایا۔ ’’ ہاں تو تم میرے حسب منشأ ہو۔ بس انہی کپڑوں میں مجھے کفنانا۔ ‘‘ اس گفتگو کے بعد اور کیا کیا باتیں ہوئیں، مؤرخین ان سے ساکت ہیں۔ ہاں طبقات ہی میں ایک اور روایت موجود ہے۔ جو بظاہر بلکہ یقینًا اس روایت کے مخالف ہے، حافظ ابن قیم نے زادالمعاد میں اس کے تضاد پر تنبیہ بھی کی ہے، اور بغیر کسی جواب کے آگے نکل گئے ہیں۔ لیکن میرے نزدیک راویوں سے اس میں چوک ہوئی ہے اقرب الی الصحت اس کی ترتیب یوں معلوم ہوتی ہے کہ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ۔ ’’ مجھے نہلا دھلا کر کفن پہنا کر سڑک پر جا کر ڈال دینا، اور دیکھتے رہنا سب سے پہلے سواروں کی جو جماعت گزرے ان کو ٹھیرا کر کہنا کہ یہ ابوذر صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے، تم لوگ ان کے دفن میں میری مدد کرو۔ ‘‘۸ ذی الحجہ ۳۲ ہجری انا للہ وانا الیہ راجعون خدا کی ہر چیز خدا ہی کی طرف جانے والی ہے آخر وہ وقت عظیم آ گیا، آسمانوں سے فرشتے اتر پڑے اور اس خستہ و نزار سوختہ و بریاں جان کو جس نے خدا جانے اس عنصری دور میں نشیب و فراز کے عالم کے کتنے حوادث دیکھے اور خود اس قفس خاکی میں بند ہو کر کیا کیا کیا تھا۔ اسی کو لینے کے لئے دنیاوی مخمصوں سے نجات دینے کے لئے قدوسیوں کی جھرمٹ میں موت کا فرشتہ مشک بیز خیمہ میں اپنے میزبان کے پاس پہنچ گیا۔