حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اور بالفرض اگر مان بھی لیا جائے ( حالانکہ نہیں مانا جا سکتا) کہ صحابہ میں مجاہدات کا رواج نہ تھا تو حق یہ ہے کہ جن سربازوں نے اسلام سے پہلے ہی اپنے آپ کو اس طرح مٹا دیا تھا جس کی ایک ادنیٰ نظیر یہی واقعہ ہے اور ابھی حضرت ابوذرؓ کی سوانح میں آنے والے ہیں ان کے لئے کسی دوسرے ’ مجاہدہ‘ و ’ ریاضت‘ کی شاید ضرورت بھی نہ تھی۔ لیکن جو ابتدائے اسلام سے اس وقت تک ’ سبیل اللہ‘ کے کسی شعبہ میں آزمایا نہیں گیا۔ کیونکر ان دعووں کو زبان تک لا سکتا ہے جس کو میں سنتا ہوں اور ان کی عقل پر عقیدۃً اور اپنی عقل پر عملًا ہنستا ہوں۔ بہرحال تیس دن کی اس طویل مدت میں علاوہ اس واقعہ کے اور کیا کیا حوادث وقوع پذیر ہوئے مجھے اس کی تفصیل زیادہ نہ معلوم ہو سکی اور جو کچھ ہیں بھی، ان میں ظاہرًا سخت تعارض ہے حتیٰ کہ علامہ قرطبی کو مجبور ہو کر لکھنا پڑا وفی التطبیق بین الروایتین تکلف شدید ۱؎ دونوں روایتوں میں تطبیق دینے میں سخت تکلف ہے حافظ ابن حجر کے مشورہ سے یا روایات کے تتبع سے جس نتیجہ تک میں پہنچا ہوں بہ ترتیب ذیل اسے درج کرتا ہوںپہلا واقعہ یہ تو ظاہر ہے کہ حضرت ابوذرؓ نے اس حادثہ کے بعد بھی حرم محترم کو نہیں چھوڑا۔ جو دھن تھی وہ بندھی رہی ایسا معلوم ہوتا ہے انھیں دنوں میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ادھر گزر ہوا۔ اگرچہ آپ کی عمر بہت تھوڑی تھی لیکن قسمت کی بہتری میں اس وقت بھی کیا کلام ------------------------------ ۱؎ فتح الباری جزء ۲۵ مطبوعہ انصاری ۴۴