حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم یوم یحمیٰ علیھا فی نار جھنم فتکویٰ بھا جباھھم و جنوبھم وظھورھم ھذا ما کنزتم لانفسکم فذوقو ما کنتم تکنزون اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے ان کو دردناک دکھ کا مژدہ سنا دو اس دن وہی چاندی سونا آگ میں گرم کئے جائیں گے پھر ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھ اس سے داغی جائے گی اور کہا جائے گا یہ وہی ہے جسے اپنے فائدے کے لئے تم نے اکٹھا کر رکھا تھا۔ پس چکھو اس چیز کو جس نے تم لوگ جمع کرتے تھے۔ الغرض متواتر مسجدوں، بازاروں میں آپ کا یہ بیان ہوتا رہا، مؤرخین کا بیان ہے اس واقعہ سے عام طور پر دمشق میں برہمی پھیل گئی۔ غربا امراء کو تنگ کرنے لگے ایک آفت برپا تھی۔ طبری میں ہے۔ حتیٰ ولع الفقراء بمثل ذالک و اوجبوہ علی الاغنیاء ۱؎ غربا اس قسم کی باتوں سے دلچسپی لینے لگے اور امیروں پر اس کو واجب کر دیا ( جو کچھ ان کے پاس جمع ہو اسے خرچ کر دیں ) چوں کہ اس مسئلہ نے آیندہ چل کر ایک اہم صورت اختیار کی۔ اس لئے ہم اس میں کچھ تفصیل سے کام لینا چاہتے ہیں۔ خصوصًا اس لئے بھی کہ ہمارے نزدیک اس وقت تک کسی نے آپ کے اصل مقصد تک پہنچنے کی صحیح کوشش غالبًا نہیں کی، لوگ سرسری طور پر ان کی باتوں کو سن کر گزرتے رہے۔ اور یوں عام طور سے اہل علم میں بھی ایک غلط بات مشہور ہوگئی ہے۔آپ کے مذہب کی صحیح تنقیح مختلف لوگوں نے آپ کے خیال کی مختلف شرح کی ہے۔ ہم پہلے علماء کی آراء درج کرتے ہیں اخیر میں جو کچھ میری اپنی رائے ہے اسے بیان کروں گا۔ واللہ ------------------------------ ۱؎ تاریخ طبری ۶۶ ج ۵