حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
کر دیا کہ ابھی مضمون نصف سے کم ہی شائع ہوسکا تھا، لیکن صبؔر سے کام نہ لے سکے، اور تکمیل کا انتظار کئے بغیر جلد اول کے عنوان سے شائع شدہ حصّہ کو کتاب بنا کر انھوں نے چھاپ بھی دیا۔ مجھے اسکی خبر نہ تھی۔ ایک دوست نے اطلاع دی منگا کر دیکھا، کاغذ خصوصاً قسم اول میں تو انھوں نے گویا آرٹؔ پیپر ہی کا لگایا تھا۔ لیکن کتابت اور طباعت حد سے زیادہ حوصلہ شکن تھی۔ تاہم اپنے فطری اقتضاء کی بنیاد پر خاموش ہو کر رہ گیا؛ پھر مضمون کی تکمیل کے بعد مطبع قاسم کے، مالک اور مینجر مولٰنا طاھر صاحب نے بھی کتاب کی شکل میں دوسری دفعہ اسکو چھاپا، مگر افسوس ہے کہ چھاپنے سے پہلے اب کے بھی مجھے مطلع نہ کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گو کتابت و طباعت کاغذ کے لحاظ سے تو چنداں شکایت کی کوئی بات نہ تھی، لیکن مدراسی نسخہ میں جو نقائص اور غلطیاں رہ گئی تھیں، قریب قریب وہ ساری باتیں طبع دوم میں بھی باقی ہی رہ گئیں۔ لیکن درویش کا قہر ظاہر ہے، کہ جان درویش کے سوا اور کہاں جا کر ٹوٹ سکتا ہے۔ اس عرصے میں وقتاً فوقتاً بعض اہل نظر کی نظر سے یہ کتاب گزرتی رہی ان نقائص اور خرابیوں کے باوجود میں نے تبریک و تحسین کے ان الفاظ کو ہمیشہ تعجب سے پڑھا، اپنے آپ کو جن کا کبھی مستحق نہیں خیال کرتا تھا، مولوی ظفر الملک علوی تو اپنے رسالے المناظر میں ہمیشہ اس کتاب کا اشتہار دیتے ہوئے التزاماً ان الفاظ کو استعمال کرتے تھے کہ " نرالے اور البیلے" طرز تحریر کا ایک عجیب و غریب نمونہ ہے؛ اس سلسلے میں کم از کم میرے نگاہ میں جس واقعہ کی حیثیت ایک تاریخی واقعہ کی ہے، وہ اس فقیر اور مولٰنا عبدالماجد صاحب دریا آبادی مدیر صدق