حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد کسی اور گفتگو میں مصروف ہوگئے لیکن میں موقع کی تاک میں رہا ذرا غفلت پا کر پھر پوچھا کہ آخر ان دو عشروں میں سے کس عشرہ میں واقع ہوتی ہے فرمایا کہ آخر عشرہ میں اور اس کے بعد ارشاد ہوا کہ بس اب آیندہ کچھ نہ پوچھنا پھر آپ ﷺ دوسری باتوں میں مشغول ہوگئے مگر میں تاک ہی میں لگا رہا موقع پاتے ہی باوجود ممانعت کے میں نے یہ کہتے ہوئے اقسمت علیک یا رسول اللہ بحق علیک لتحدثنی فی ای العشر ھی۔ حضور ﷺ پر میرا جو کچھ بھی حق ہے میں اس کی قسم دے کر عرض کرتا ہوں کہ مجھے بتا دیجئے کہ عشرہ اخیرہ کی کس رات میں یہ رات واقع ہوتی ہے۔ بس اس کے بعد علم قلزم عمیق میں جنبش ہوئی اور ایسی ہوئی جسے تم حضرت ابوذرؓ کی زبانی سن چکے کہ اس تلاطم کو نہ انھوں نے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ دریائے رحمت کے اس غضبی جوش کا منشاء کیا تھا۔ کیا باوجود ممانعت کے حضرت ابوذرؓ کے پوچھنے پر غصہ آیا۔ شاید اس پر کہ ابوذرؓ میں اب تک اپنا اتنا حصہ باقی ہے جس کی تعبیر انھوں نے ’’ حق‘‘ سے کی حالانکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابوذرؓ کو جو کچھ بنانا چاہتے تھے اس کے اندر ’’ حق‘‘ کی گنجایش کہاں رہتی ہے۔ بہرحال یہ الفت و محبت کی دائرہ کی باتیں ہیں ان رموز و اسرار تک محب و محبوب کے سوا کسی دوسرے کی کیا رسائی ہوسکتی ہے۔ میں تو اس وقت ان نوازشوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مختلف شکلوں میں جاں باز ابوذرؓ پر دربار نبوت سے مبذول ہوتی رہتی تھیں واقعات بکثرت ہیں۔ لیکن سب سے نمایاں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عین مرض کا ایک واقعہ ہے۔ حضور صاحب فراش ہیں۔