حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
کھڑا ہو جاتا ہے۔‘‘ مگر تاثیر کی بوقلمونی کس درجہ اعجوبہ پرواز ہے کہ کپڑے آنًا فانًا سفید ہوجاتے ہیں اور دھوبی کا چہرہ اسی دھوپ میں اسی وقت ایک ہی ہوا، میں اسی نسبت کے ساتھ سیاہ پڑتا جاتا ہے‘‘ تم دیکھتے ہو کہ عرب کے ایک ساحلی شہر طیبہ میں ایک نبوی آفتاب چمک رہا ہے۔ اس کے اردگرد سیکڑوں دل، ہزاروں روحوں کا اجتماع ہے۔ لیکن وہ جنھیں لوگ افضل البشر بعد الانبیاء کہتے ہیں صدیقیت کے رنگ کو اپنے اندر اس کی کرنوں سے پختہ کر رہا ہے۔ کسی میں فاروقیت یا حق و باطل کی قوت ممیزہ شدت پذیر ہو رہی ہے۔ کوئی ہے جو اپنے روح و جسم میں حیا کے تمام شعبوں کی تکمیل میں مصروف ہے کسی کا سینہ علوم و معارف کے لئے یومًا فیومًا منشرح ہورہا ہے۔ اور جہان یہ ہے وہیں چند اشقی القوم ایسے بھی ہیں جن کے قدم جہل و تیرہ دوری کی سیاہ کیچڑوں میں دھنس رہے ہیں۔ گمراہی و شرارت کے لہب و شعلوں میں گھسے جاتے ہیں۔ تبرک الذی بیدہ الملک و ھو علی کل شیٔ قدیر الذی خلق الموت و الحیواۃ مبارے ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہت ( عالم) کی ہے اور وہ ہر چیز ( خواہ وہ شر ہو یا خیر) پر قادر ہے اسی نے پیدا کیا موت کو ( جو ایک شر چیز ہے) اور زندگی کو ( جو خیر ہے) انھیں دلوں میں ایک وہ دل بھی تھا جس پر غفاریوں کی خاندانی درندگی کے پردے پڑے ہوئے تھے اور جس پر لٹیروں کی قساوت و ہوسناکی کا بادل محیط تھا۔ لیکن ان تقہائے تار کے اندر ایک مادہ صالحہ بھی پنہاں تھا جو اسی مدنی آفتاب کے نیچے خوش قسمتی سے آ گیا ہے۔ سراج منیر ( آفتاب درخشاں) کی تیز کرنیں اس پر بھی پڑ رہی ہیں،