حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
در رہ او چو قلم گر بسرم باید رفت بادل درد کش و دیدۂ گریاں بروم نذر کردم کہ گر ایں غم بسر آمد روزے تادر میکدہ شاداں و غزل خواں بروم بہ ہوا دریٔ او ذرہ صفت رقص کناں تالب چشمۂ خورشید درخشاں بروم آخر وہ ذرہ اڑا جو غفار کے خانوادہ میں چشمہ خورشید سے ملنے کے لئے پیدا کیا گیا تھا محمد بن اسمٰعیل بخاری اور محمد بن سعد کاتب الواقدی راوی ہیں کہ اس کی پیٹھ پر ایک چھوٹی سی سیاہ مشک پانی سے بھری لدی ہوئی تھی اور زنبیل میں تھوڑے سے مقل ۱؎ کے دانے تھے تلاش محبوب میں تن تنہا حجاز کے ریگستانوں کو طے کرتے ہوئے وہاں جا رہے تھے جہاں جانے کے بعد پھر انھیں کسی جگہ جانے کی ضرورت نہیں ہوئی۔ جذبۂ شوق نے منزل کو آسان کیا اور سامنے مکہ کا سواد نظر آیا۔ نہیں بتایا جا سکتا کہ حضرت ابوذر غفاریؓ نے اس سے پہلے بھی کسی افق سے امید کی صبح کو اس طرح طلوع ہوتے ہوئے دیکھا تھا یا نہیں۔ آج وہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو نہیں ہیں لیکن جگر سوختوں سے اب بھی پوچھ سکتے ہو جن کے سامنے قبہ خضراء اپنے مسکراتے ہوئے ناصیہ جمال سے یکا یک ظاہر ہوتا ہے اور شغدف والے تڑپ تڑپ کر کبھی اپنی جانوں کو بھی کھو بیٹھے ہیں فالحیٰوۃ حیٰوتھم والممات مماتھم۔ ------------------------------ ۱؎ مقل کے عام معنی گو گل کے ہیں جو دھونی اور بخارات میں استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اس کے اور معنی بھی ہیں صاحب تاج العروس لکھتے ہیں کہ دوم کے پھل کو بھی کہتے ہیں جو کھجوروں سے مشابہ ہوتا ہے۔ غیاث نے بیروں کے مشابہ بتلایا ہے اور یہی یہاں مراد ہے۔