حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
خدا جانے حضرت ابوذرؓ نے کیا دیکھا سامنے سے کیا چیز تڑپ کر نکل گئی مگر فورًا کچھ سوچ کر آپؓ یکایک تھم گئے اور خود ساختہ طمانیت و سکون طاری کرتے ہوئے ( بجنسہ اس طرح جب کہ ایک بدنام و ناکام کوچہ محبوب سے روکا گیا ہو اور آنے جانے والوں سے کسی کی خیریت و صلاح اجنبی انداز کے ساتھ پوچھتا ہے) انیسؓ کو آپ نے اجازت دی اور اصل مقصد کو جس بے غرضانہ اسلوب مگر دل دوز لفظوں میں ادا کیا ہے میں اسے بجنسہ بخاری سے نقل کرتا ہوں۔ ارکب الی ھذا الوادی فاعلم لی علم ھذا الرجل الذی یزعم انہ نبی یاتیہ الخبر من السماء و اسمعہ من قولہ ثم ائتی ﴿بخاری﴾ اس وادی ( مکہ) کو جاؤ ( کوئی مضائقہ نہیں) ( مگر ہاں) میرے لئے یہ کرتے آنا کہ وہ جو اپنے کو نبی خیال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ آسمان سے اس کے پاس خبریں آتی ہیں ذرا اسکی حالت دریافت کرنا سننا کہ وہ کیا کہتا ہے ( یہ کر کے) پھر آنا ادھر حضرت انیسؓ تو مکہ روانہ ہوئے۔ ادھر ایک شعلہ انتظار تھا جو ان کے رخصت ہوتے ہوئے حضرت ابوذرؓ کے دل و جگر میں بھڑکنے لگا رہ رہ کر اس کی شدت بڑھ رہی تھی۔ حتیٰ کہ اس سختی کو آپ اسلام کے بعد بھی نہ بھولے تھے اپنی داستان سناتے ہوئے فرما دیتے فرات علی۱؎ انیس نے بہت دیر لگائی تھی بہر کیف دیر ہوئی تھی یا نہیں لیکن حضرت ابوذرؓ پر یہ وقت بہت گراں گزرا اور شاید اس سے زیادہ شکایت کسی تراخی کی انھوں نے کبھی نہیں کی۔ ------------------------------ ۱؎ طبقات