حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دریافت کرنے لگے۔ کہ ان کا اصلی وطن کہاں ہے۔ کس قبیلہ کے آدمی ہیں مکہ کےکس خاندان سے ان کا تعلق ہے۔ راہ گیر نے سارا نشان پتہ بتا دیا کہ وہ مکہ کا باشندہ ہے اور قبیلہ قریش کے ممتاز خاندان کا آدمی ہے۔(1) اس قدر پوچھ کر آپ چپ ہوگئے دل میں ایک انجذابی کیفیت تھی جو رہ رہ کر ان کو مکہ معظمہ کی طرف گھسیٹ کر لے جانا چاہتی تھی۔ لیکن کچھ اپنے بت پرست بھائی کا خیال کچھ مشرکہ ماں کی خاطر سے دل میں اس انگارے کو دبائے بیٹھے رہے جو تبلیغ کے بعد ہر ایسے دل میں خودبخود بلا کسی دلیل و حجت کے پیدا ہوتا ہے۔ عقیدت و الفت کا ایک دریا تھا جو روح ابو ذری میں جوش زن تھا۔ نہیں سمجھتے تھے کہ کیا ہے اور کیوں ہے۔ مگر تھا اور وہ اس کی ہیجان سے بے کل تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں مگر یہاں تو سعادت آپ کی پیشانی چوم چکی تھی آپ کے رشد و ہدایت کا سامان آسمان پر کیاگیا تھا۔ انیس رضی اللہ عنہ نے یکایک آپ سے آکر کہا "بھائی جان! میں ذرا مکہ جاؤں گا۔ آپ ذرا اونٹوں کی نگہداشت فرماۓ گا۔ ان کے چارہ پانی کا خیال رکھیں۔ انشااللہ تعالیٰ جلد واپس آتاہوں"۔(2) ایک آواز تھی یا بجلی جس کی روتمام قویٰ و حواس پر آناً فاناً دوڑ گئی۔ ------------------------------ (1) طبقات اور صحیح مسلم۔ (2) بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو ذر نے حضرت انیسؔ کو جانے کا حکم دیا تھا لیکن صحیح مسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے انھوں نے سبقت کی میں نے دونوں میں تطبیق دی ہے کہ یہ اجازت کے لئے امر تھا۔ نہ کی ابتدائی۔