حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
رقبہ میں سے گذر کر ام القری میں گونج چکی تھی۔ گھر گھر اس نئے دین ظاہر ملۂ غالبہ کا چرچا تھا کفاروں میں اسلاف پرستی کے جذبات موجزن تھے۔ بچوں سے بوڑھوں تک اپنے خود تراشیدہ معبودوں کی تائیدوں میں سرشار ہو رہا تھا۔ راہ گیروں اور مکہ میں آ کر بازار کرنے والے اعراب و مسافرین کے کان کھڑے ہوچکے تھے مکہ سے جو باہر جاتا وہ اس خبر کو ہر اپنے شناسا ملنے جلنے والے کو تعجب سے سناتا تھا۔ اسی عرصہ میں مکہ سے کوئی مسافر حضرت ابوذر غِفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہٗ کے پڑاؤ کی طرف گزرا۔ آرام لینے کے لئے کچھ دیر شاید وہاں ٹھیرا ہوگا بات میں بات پیدا ہوئی۔ معلوم نہیں حضرت ابوزر ؓ کے خیالات سے اسے قبل سے واقفیت تھی یا اسی وقت ان کی گفتگو سے اسے معلوم ہوا کہ آپ بھی ایک ہی خدا کے ماننے والوں میں سے ہیں۔ بہر کیف اس نے کہا۔ ابوذر! یہ تم جو کچھ کہتے ہو مکہ کا ایک شخص بجنسہ اسی کا مدعی ہے۔ دعوی کرتا ہےکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس پر کلام نازل فرمایا اور اسے اپنا پیغمبر بنایا ہے۔ خدا کا حکم ہے کہ اس کے علاوہ اور کسی معبود سے کوئی واسطہ نہ رکھو ۱"۔ اس نے تو رواداری میں یہ خبر سنائی۔ لیکن ادھر حضرت ابوذر کا دل بلیوں اچھل پڑا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گوہر مقصود کی جگمگاہٹ نے اِن کے دل و دماغ کو روشن کر دیا۔ سمجھ لیا کہ وقت قریب ہے دل کی بے چینی کی دوا آسمان سے اتر چکی ہے۔ سنتے ہی سنبھل کر بیٹھ گئے اور نہایت اضطراب کے ساتھ سرور کائنات ------------------------------ طبقات ۳۶۱۰ ج ۶ ۔