حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
خیمہ میں آئے۔ بیوی صاحبہ اور آپ کی یتیم صاحبزادی صاحبہ وہاں موجود تھیں آپ نے تسلی و تشفی کے کلمات ان کو کہے خود بھی سنبھلے ان کو بھی سنبھالا جب گونہ سکون پیدا ہوگیا تو چلنے کے ارادے سے اٹھے۔ حضرت ابوذرؓ کی صاحبزادی صاحبہ نے پوچھا کہ کہاں تشریف لے چلے ابّا نے وصیت کی ہے اور خدا کی قسم دی ہے کہ جب تک آپ لوگ کچھ کھا نہ لیں سوار نہوں۔ انھوں نے اپنی زندگی میں بکری ذبح کرا کے پکنے کا حکم دے دیا تھا۔ جو پک کر رکھی ہوئی ہے۔ یہ فرما کر کھانا پیش کر دیا کھایا تو کیا جاتا۔ لیکن مرنے والے کے اس خلوص کو دیکھ کر عبداللہ بن مسعودؓ دنگ ہوگئے اور ہونا چاہئے تھا کہ حضرت ابوذرؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر اس وقت بھی عمل کیا جب دنیا میں وہ اپنی آخری سانس پوری کر رہے تھے تا کہ یہ دعوٰی کہ ’’ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح ملوں گا جس طرح آپ نے مجھ کو چھوڑا ہے ‘‘ عملی طور پر مدلل ہو جائے۔ الغرض جو کچھ کھایا جا سکا کھانے والوں نے کھا لیا۔ اس کے بعد عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا کیا۔ طبری نے اس کے متعلق دو روایتیں درج کی ہیں ایک میں یہ ہے کہ حضرت ابوذرؓ کے تمام اہل و عیال کو ساتھ لے لیا اور مکہ معظمہ میں جا کر حضرت عثمانؓ کے حوالہ کر دیا۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ نہیں ان لوگوں کو تسلی دلاسہ دے کر آپ اسی وقت مکہ معظمہ روانہ ہو گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس جانکاہ حادثہ کی خبر دی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت صدمہ ہوا