حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
حلحال خبتی، حارث بن سوید تمیمی، عمر بن عتبہ السلمی، ابن ربیعہ سلمی، ابو الفرز تمیمی، ابو رافع مزنی، سوید بن شعبہ تمیمی، یزید بن معاویہ تمیمی، واخا القرثع الضبی، اخو معضد الشیبانی۔ الغرض میدان میں بصد بیکسی جو دم توڑ رہا تھا محض اس کی خاطر تھی کہ کوفہ کی زمین ہلائی جاتی ہے اور فقیہ الاسلام معلم الامۃ کو زبردستی کھینچ کر جنازہ پر لا کر کھڑا کیا جاتا ہے تا کہ جاننے والے جانیں کہ جو خدا کے لئے مرتا ہے خدا اس کے لئے کیا کچھ نہیں کرتا۔ مجھے بار بار حیرت ہوتی ہے کہ حج کا موسم جب ختم ہو رہا ہے ایام حج بھی گزر رہے ہیں ایسے وقت میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکہ آنا ایک محض بے موقعہ سی بات معلوم ہوتی ہے۔ ان کو اگر آنا تھا تو پھر خواہ مخواہ چند دنوں کے لئے انھوں نے حج کو کیوں چھوڑا۔ میں اس معمہ کو بالکل نہیں سمجھ سکا۔ پھر اس پر حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ فرمانا ’’ کہ دیکھتے رہنا کوئی آتا ہو گا۔ ‘‘ عجب اسرار ہیں جو علت و معلول کے سلسلہ میں کسی طرح درج نہیں ہوتے۔ رہ رہ کر میری زبان پر یہ مصرعہ جاری ہوتا ہے کہ اے زائر حرم غرض زیں طوف خانہ چپسیت نماز کے بعد جنازہ اٹھا، کن کندھوں پر اٹھا، اور کس کا اٹھا۔ چشم بصیرت ------------------------------ ( بقیہ سلسلہ گذشتہ ) عام طور پر لوگوں کی تمنا ہوتی ہے کہ سرے سے جنازے کی نماز کو کوئی عالم دین پڑھاتا، لیکن قدرت نے حضرت ابوذرؓ کے لئے اسی آرزو کو عجیب طرح سے پوری کی کہ اسلامی دینیات کی سب سے زیادہ معتبر ترین شکل یعنی ’’ حنیفیت ‘‘ جس صحابی اور تابعیوں کے ذریعہ سے امت تک پہنچی ہے، اسی فقہ کے تینوں امام یعنی عبداللہ بن مسعود، علقمہ اور اسود سب اس میں شریک ہیں ان بزرگوں کے صحیح مقام اگر جاننا چاہتے ہوں تو میری کتاب تدوین فقہ میں دیکھئے۔