حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اور کیا ہو سکتا ہے اس کے بعد حضرت ابوذرؓ نے فرمایا۔ ’’ ایک اور مژدہ سنو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جن دو مسلمانوں کے درمیان دو بچے مرگئے ہوں یا تین بچے مرگئے ہوں اور ان کی موت پر انھوں نے صبر سے کام لیا ہو اور صبر پر ثواب کی امید لگائی ہو تو یہ دونوں ہمیشہ کے لئے آگ کے شعلوں سے جدا ہو گئے۔‘‘ یہ تو ظاہر ہے کہ ابوذرؓ نے جو یہ حدیث بیان کی عمومًا اس پر برانگیختہ کرنے والا تبلیغ کا جذبہ دیرینہ تھا۔ تاہم یہ بات البتہ قابل غور ہے کہ آپ نے خاص کر اسی روایت کو یہاں پر کیوں بیان کیا، میں اس کا قطعی جواب تو نہیں دے سکتا، پھر بھی قرائن و قیاسات کا مقتضٰی ہے کہ آپ کو یہ بھی جتانا منظور تھا کہ دیکھو ابوذر! اس دنیا سے جاتا ہے مگر اپنے اعمال و افعال پر بھروسہ کر کے نہیں جاتا۔ اپنے صدقات و خیرات پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد نہیں کرتا۔ ان چیزوں میں سے اس کو کسی پر غرۃ نہیں۔ کسی پر بھروسہ نہیں۔ ہاں صرف ایک آس ہے کہ اس کے چند بچے مر چکے ہیں، الرحم الراحمین شاید اسی کو بخشائش و مغفرت کا ذریعہ بنا دیں فقط ایک یہی چیز ہے کہ جو ممکن ہے کہ رحمت ایزدی کو اس کی طرف متوجہ کر سکے اور اسی وقت پر کیا موقوف ہے، بسا اوقات لوگوں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے بھی سنا۔ واللہ لوددت ان اللہ عز وجل خلقنی یوم خلقنی شجرۃ تعضد و توکل ثمرھا خدا کی قسم میرے دل کی یہ آرزو ہے کہ کاش! حق تعالٰی نے جس دن مجھے پیدا کیا ( بجائے آدمی ) کے اگر میں ایسا درخت بن کر پیدا ہوتا کہ جو کاٹ دیا جاتا ہے ( اور جب تک کٹتا نہیں ہے ) لوگ اس کے پھل کھاتے اور یہ تو ایک صوفیانہ نکتہ ہے کہ موت سے پہلے جس قدر خشیۃ و خوف اپنے دل پر