حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
پردہ چاک ہوتا ہے۔ اور اندر سے گردنیں اٹھائے اونٹوں کی ایک قطار انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ نمودار ہوئی۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ وہ اس طرح اڑے چلے آرہے تھے کہ گویا بھاری پرندوں کی ٹولیاں زنّاٹے بھرتی ہوئی آ رہی ہیں۔ عربی عماموں والے شتر سوار گرد و غبار میں ڈوبے ہوئے اس پر سوار تھے آنًا فانًا وہ لوگ بیوی صاحبہ کے سر پر پہنچ گئے۔ ان لوگوں کی یکا یک نگاہ آپ پر پڑی۔ اس عالم تنہائی میں ایک عورت کا اس طرح سے کھڑا رہنا حیرت میں ڈال دینے کے لئے کافی تھا۔ نکیلیں ڈھیلی کر دی گئیں اونٹ روک دئیے گئے۔ جو آگے تھا اس نے آپ کو مخاطب کر کے پوچھا۔ ’’بیوی صاحبہ آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں آپ پر کیا حادثہ گزرا ہے؟‘‘ بیوی صاحبہ۔ ’’مسلمانو! ایک آدمی بیچارہ مر رہا ہے خدا کے لئے اس کے دفن کا سامان کرو۔‘‘ اس کے بعد جو جملہ آپ کی زبان سے نکلا، دل کے ٹکڑے اڑا دیتا ہے کلیجہ پاش پاش ہوا جاتا ہے بے نیاز کی بے نیازیوں کا مرقع کچھ اس طرح آنکھوں کے سامنے عریاں ہوتا ہے کہ دل بیٹھا جاتا ہے اللہ اکبر! ابوذر راتوں کو پیشانی گھس گھس کر صبح کر دینے والا ابوذر، آہ کہ وہی ابوذر جس نے عشق و سرمستی میں اپنی عمر کاٹ دی۔ توحید و سنت کی اشاعت میں دربدر پھرنے والا ابوذر! محض آسمانی محبوب کی رضا جوئی میں دولت و امارت سے کنارہ کش ہونے والا ابوذر! صرف اسی کی پوجا کے لئے آبادیوں کو چھوڑ کر جنگل کے پکھیرو کی طرح زندگی گزارنے والا ابوذر! آہ کہ وہی ابوذر! آج ایک جنگل میں جان دے رہا ہے اور اس طرح دے رہا ہے کہ ان کی بیوی اللہ اللہ!