حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
لوگوں میں سے ایک شخص ایک چٹیل سنسان وادی میں جان دے گا جس کے جنازے میں مسلمانوں کا ایک گروہ آ کر شریک ہو گا۔ اور میں اس دن سے اندازہ کر رہا ہوں کہ وہاں پر جتنے لوگ تھے ان میں سب کے سب کسی شہر یا آبادی میں وفات پاچکے اور اب صرف میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ جو اس وقت اس وادی میں بے کسی میں دم توڑ رہا ہوں۔ بس جا! راستہ پر جا کر بیٹھ۔ مسلمانوں کی کوئی جماعت ضرور آ رہی ہوگی۔ کیونکہ خدا کی قسم نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ کہا گیا ہے۔ بیوی صاحبہ۔ خدا جانے اب لوگ کہاں سے آئیں گے حاجیوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بند ہو چکا تھا۔ راستہ بالکل سنسان پڑا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ تم جاؤ تو سہی جا کر دیکھو بھی تو۔ سمجھنے والوں کو اب جا کر معلوم ہو گیا ہوگا کہ اس سے پہلے جو کچھ ہوا تھا ؏ سر دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی کے لئے ہو رہا تھا۔ غفار کا بہادر جوان صید گاہ عشق میں کودا تھا۔ اس پر جو تیر چلایا گیا تھا آج جا کر نشانہ پر بیٹھتا ہے۔ روتی دھوتی۔ یاس و ناکامی کے ساتھ آپ کی بیوی صاحبہ اٹھیں اور سڑک کے کنارے آ کر بیٹھ گئیں۔ مایوسانہ نگاہیں افق تک پھیل کر کسی چیز کو انتہائی بے کسی کے ساتھ ڈھونڈھ رہی تھیں۔ اور پھر ناکامیوں کے ہجوم میں واپس آجاتیں۔ یہ سلسلہ آمدورفت کا اسی طرح قائم تھا کہ یکا یک میتدا کے چہرے سے نقاب الٹا گیا اور اس کی خبر گردو غبار کی صورت میں ایک جانب سے آگئی بیوی صاحبہ کا اس وقت کیا حال ہوا ہوگا لکھنے کی ضرورت نہیں سوچنے کی ضرورت ہے۔