حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
سبحان اللہ کسی کی زبان سے کچھ نکل گیا تھا فقط اس کو پورا کرنے کے لئے کیا کیا سامان ہو رہے ہیں۔ ابوذر دمشق سے بلوائے جاتے ہیں۔ مدینہ سے ربذہ بھیجے جاتے ہیں۔ حج کے بہانے سے ربذہ کو خالی کیا جاتا ہے۔ اور آہ کہ وقت بھی وہ رکھا جاتا ہے، کہ راہ کا راہی اور سڑک کا کوئی مسافر بھی میسر نہ آسکے۔ ؏ ’’ ایں ہمہ غوغا برائے نیم جانے می شود ‘‘ کہ فعال لما یرید کی قوتوں کو مانو اور اس کے آگے سربسجود ہو جاؤ۔ خیر جب سارا سامان تیار ہو گیا دیکھ لیا گیا کہ شرائط جو زبان سے ادا ہوئے تھے، ٹھیک پورے ہو چکے ہیں کہ یکا یک اسی ہُو کے میدان میں جہاں چند جانوں کے علاوہ دور دور تک شاید کوئی پر مارنے والا پرندہ بھی موجود نہ تھا۔ ربذہ کی صوفی خیمہ والی کالی تیماردار عورت ( یعنی حضرت ابوذر کی حرم محترمہ نے ) ایک چیخ ماری، خدا جانے انہوں نے کیا دیکھا اور کس کو دیکھا۔ مگر فورًا ہچکیوں میں ملی ہوئی نرم آواز میں حضرت ابوذر کے بسترے سے آواز آئی ’’ تم لوگوں کو کس نے رلایا۔‘‘ بیوی صاحبہ۔ تمھارا وقت قریب آ گیا ہے اور میں عورت ہوں، اتنی قوت نہیں کہ اس پتھریلی زمین میں تمہارے لئے ۔ ۔ ۔ کھود سکوں گی۔ اور آہ کہ گھر میں ایک دھجی بھی نہیں جس میں تمہیں لپیٹ کر ۔ ۔ ۔ کر سکوں گی۔ حضرت ابوذرؓ یہ سن کر نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ ان سامانوں کا جو اصلی منشاء تھا اس کو ان الفاظ میں ظاہر فرمانے لگے۔ ’’ مت رو، اس لئے نہ رو، میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھا، اس وقت آپ نے فرمایا کہ ’’قطعًا تم