حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
ضعف کا یہ حال کہ دو قدم چلنا بھی دوبھر تھا اور حسرتوں کی وہ سینہ زوریاں کہ جس طرح بھی ہوا ابراہیم کے سر پر چمکنے والی بجلی یا فاران والی فارقلیط کی روح کو منور کرنے والی تجلی ایک دفعہ دل و جان پر کوند جاتی گذر جاتی۔ لیکن جہاں صرف اپنی خواہشوں کی پابندی ہو وہاں ان باتوں کو کون پوچھتا ہے، آہ کہ جس پردہ جلال کے ناصیہ پر۔ ان اللہ غنی عن العالمین اللہ تمام عالم سے مستغنی ہے آتشیں حروف میں لکھا ہوا ہو وہاں ’’ میں یہ چاہتا ہوں‘‘ کی آواز کون سنتا ہے ابوذر نے چاہا، لیکن جسے ابوذر چاہتا تھا اس نے نہ چاہا پھر کیا مجال تھی کہ ربذہ کا بیمار ایک قدم بھی آگے بڑھا سکتا تھا۔ آخر یہی ہوا کہ بیماری و نقاہت نے مجبور کیا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہٗ اس پر شوکت حج میں شریک نہ ہو سکے۔ کیا کرتے تھک کر ربذہ کے خیمے میں پڑگئے۔ ربذہ کے باشندے ایک تو یوں ہی تھوڑے تھے اس پر کل سرکاری آدمی ان بیچاروں کو کیا علم تھا کہ افق غیب میں کیا مستور ہے۔ حضرت عثمان ؓ کی آمد کی خبر سن کر وہاں کے کل آدمی مکہ معظمہ روانہ ہوگئے۔ ربذۃ بالکل خالی ہو گیا۔ زندہ نفوس میں وہاں صرف آپ کا ایک جسم بیمار اور آپ کے اہل و عیال رہ گئے اور بس۔ اُدھر مناسک و زیارت کے دن بھی قریب آچکے تھے کہ مسافروں کی آمدورفت کا سلسلہ بھی بند ہو گیا سڑک بھی سنسان پڑی ہوئی تھی۔ ۱؎ ------------------------------ ۱؎ استعیاب ابن عبد البر ۸۴ ج ۴-