حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
ایک ہی سفر میں ملتا ہے۔ مختلف ملکوں کے صوبہ داروں والیوں کے نام بھی پروانے جاری کئے گئے تھے، کہ اس سال خدائے واحد کے دربار میں آ کر بیت اللہ کے خادم عثمان سے مل جائیں۔ الغرض اس سال کی مختلف خصوصیتوں نے عشق کے بازار کو بہت زیادہ گرم و تیز کر دیا تھا اور ظاہر ہے کہ اسی حالت میں ربذہ کے درویش کی آگ بھی جس قدر اشتعال انگیز ہو کر بھبھک رہی ہوگی اس کی کوئی انتہا نہیں ہو سکتی نتیجہ یہ ہوا کہ آخر بیماری دل نے کام تمام کیا۔ مدت سے آہستہ آہستہ سلگنے والی آگ دل و جگر کے ہر ریشہ میں پیوست ہو گئی۔ جو جسم انسانی تھا وہ از فرق تا بقدم انگارہ اور فقط انگارہ ہو کر دہکنے لگا حتُٰی کہ طاقت رفتار نے ساتھ چھوڑا۔ قوتوں نے جواب دیا اور وہ جو کہ سامان سفر میں مصروف تھا۔ بستر مرض پر یاس و ناکامی کی چند ٹھنڈی آہوں کے بعد اس طرح لپٹ گیا کہ پھر کبھی نہ اٹھا۔ دنیا نے سمجھا کہ کوئی مادی بیماری ہے لیکن جنہوں نے آپ کے حالات کا مطالعہ ابتداء سے کیا تھا وہ سمجھ گئے کہ جو چرکا مکہ کے کسی چبوترے پر لگایا گیا تھا وہ اب گہرا ہو کر بیماری کی صورت میں ظاہر ہوا ہے حتُٰی کہ ضعف نے آپ کو اس درجہ مجبور کیا کہ باوجود قرب کے سب سے آگے رہنے والا سرباز آج سب سے پیچھے رہ گیا یا رکھ لیا گیا، آپ جس خیمہ میں بیمار ہو کر پڑ گئے تھے اسی کے سامنے سے روزانہ حاجیوں کا قافلہ امنگوں اور ارمانوں کے ساتھ گزرتا۔ اور آپ کے دل پر رہ رہ کر چوٹ پڑتی۔ آرزؤں کا ولولہ اٹھاتا اور تنِ زار کی کمزوری گراتی ایک عجب کشا کش تھی ہر بن مو سے گویا آواز آ رہی تھی۔ بے عشق عمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں طاقت بقدر لذتِ دیدار بھی نہیں