حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
وہ اپنی ہر بات میں عثمانؓ پر طعن و شناعت کرنے کو اپنا شیوہ قرار دئے ہوئے ہیں۔ الغرض اس واقعہ کے پیش کرنے سے مجھے حضرت ابوذرؓ کی اطاعت کی ایک تصویر اتارنی تھی اور الحمدللہ کہ وہ پوری اور صاف اتری۔ یہ الگ بحث ہے کہ حضرت عثمانؓ نے ایسا کیوں کیا؟ فقہ میں اس واقعہ کو بہت اہمیت دی گئی ہے میرا فرض چونکہ اس قسم کے مسائل کی تفصیل نہیں۔ اس لئے میں اس پر مفصل بحث نہیں کر سکتا۔ ہاں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ ممکن ہے کہ حضرت عثمانؓ کے نزدیک سفر میں قصر ضروری نہ ہو، جیسا کہ شوافع کا مذہب ہے کہ قصر رخصت شرعیہ ہے عزیمت اور اسقاط نہیں ہے اسے محض رخصت خیال کرتے ہوں، ہو سکتا ہے کہ دیہات کے گنوار موسم حج میں اس سال زیادہ آگئے ہوں۔ ممکن تھا کہ اگر ظہر کی آپ دو ہی رکعت پڑھتے تو یہ لوگ گھر جا کر بھی دو ہی پڑھنے لگتے اور سند میں حضرت عثمانؓ کے فعل کو بیان کر دیتے۔ اس مصلحت عام کا خیال فرما کر آپ نے اگر شریعت ہی کے ایک قانون سے نفع اٹھایا تو اس میں کیا حرج ہے ۱؎ سطحی نظروں میں تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے لیکن جن دلوں میں اجتہادی بصیرتیں ہیں ان کی تحقیق یہی ہے کہ حضرت عثمانؓ بھی قصر کو واجب سمجھتے تھے۔ اور منیٰ میں اس وقت چونکہ آپ نے سفر کا ارادہ کو متبدل بقصر کر دیا تھا جیسا کہ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ نے یہ نہیں کہا کہ سفر میں اتمام بھی جائز ہے اس لئے میں نے پڑھی بلکہ آپ کی ہر گفتگو سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنے کو مسافرت سے نکال کر مقیم قرار دینا چاہتے تھے اور اسی کے وجوہ پیش ------------------------------ ۱؎ حاشیہ میں لکھا بھی ہے کہ حضرت عثمانؓ نے اس مصلحت کو بیان بھی کیا تھا۔