حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
آگیا یہاں لوگوں کا اس قدر ہجوم مجھ پر ہونے لگا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انھوں نے اس سے پہلے مجھ کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ عثمان سے اس بات کا تذکرہ کیا گیا انھوں نے مجھ سے کہا کہ اگر جی چاہے تو آپ ربذہ چلے جائیں تا کہ قریب بھی رہیں ( یعنی لوگوں کی بھیڑ سے نجات بھی مل جائے اور ہمارے قریب بھی رہیں گے ) بس فقط اتنی بات مجھے یہاں لائی ہے۔ ‘‘ ۱؎ آپ کا یہ بیان اگرچہ بہت مجمل ہے جس کی تفصیل بھی میں آپ کے ہی دوسرے بیان سے کر چکا ہوں، میری غرض صرف اس قدر ہے کہ آپ خود حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جب الزام نہیں لگاتے تھے تو دوسروں کو کیا حق ہے کہ حضرت ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دامن امانت پر اس واقعہ کا داغ قائم کریں۔ کس قدر عجیب ہے کہ اگر کسی سیاسی مصلحت سے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو مدینہ سے الگ کیا ہوتا۔ تو پھر ربذہ میں کیوں رہنے کا حکم دیتے مدینہ اور ربذہ میں فاصلہ ہی کتنا تھا، علاوہ اس کے ربذہ ایک ایسا مقام تھا جہاں سے ہر سال عراق کے مسافر لاکھوں کی تعداد میں مکہ معظمہ جایا کرتے تھے، اور حاجیوں کی گویا وہ فرودگاہ بھی تھی۔ ایسے مخدوش آدمی کو ایسی گزرگاہ پر قید کرنا، کس قدر قرین عقل و دانش ہو سکتا ہے۔ خصوصًا جب ارباب تاریخ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ربذۃ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد بھی کان ابوذر یتعاھد المدینہ مخافۃ ان یعود اعرابیا ۴۴ ابن اثیر ج ۳ ( یعنی مدینہ منورہ حضرت ابوذر اس لئے آتے جاتے رہتے تھے کہ کہیں گاؤں میں رہنے سے ان کے اندر دہقانیت ------------------------------ ۱؎ طبقات ابن سعد ۱۲