حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
خوف معلوم ہو، تو اپنی چادر کے پلے سے منھ ڈھاک لینا، تا کہ تم پر حملہ کرنے والا تمھارا اور اپنا گناہ لے کر واپس ہو۔ کس قدر سیاہ اور ناپاک الزام ہے، کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو ربذہ میں نظر بند کر دیا تھا ۱؎ حالانکہ واقعہ جو کچھ بھی ہے کچھ تو سن چکے۔ اور آیندہ بھی تمھیں معلوم ہوگا، خود حضرت ابوذرؓ سے بعض لوگوں نے آکر پوچھا ہے ’’ کہ تم ربذۃ کس طرح آئے اور کیوں آئے‘‘ اس کے جواب میں آپ نے اجمالی طور پر واقعات کا اظہار ان لفظوں میں کیا ہے۔ کہ میں شام میں تھا، وہاں مجھ میں اور معاویہؓ میں آیت والذین یکنزون الاٰیۃ میں اختلاف ہو گیا، معاویہؓ کہتے تھے، کہ یہود و نصاریٰ کی شان میں نازل ہوئی ہے اور میں کہتا تھا کہ ہماری اور ان کی شان میں ہے اس پر بات بہت بڑھ گئی، انھوں نے حضرت عثمانؓ کے پاس میری شکایت کر دی ( حالانکہ حضرت معاویہؓ کو اخراج کا اختیار خود بھی حاصل تھا مگر یہ فعل محض ادبًا تھا) عثمان نے مجھ کو لکھا کہ ’’ مدینہ چلے آؤ ‘‘ میں مدینہ ------------------------------ ۱؎ البلاذری نے نقل کیا ہے کہ حضرت عثمانؓ سے کسی نے کہا کہ ابوذرؓ کو ربذہ آپ نے جلا وطن فرما دیا۔ سن کر فرمانے لگے سبحان اللہ قطعًا جو باتیں لوگ پھیلا رہے ہیں ان میں سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے، ہم ابوذرؓ کی بزرگی و فضل کو خوب جانتے ہیں۔ مسلمان ہونے میں ان کو سبقت کا جو شرف حاصل ہے اس سے بھی خوب واقف ہوں۔ ہم لوگ ( یعنی رسول اللہ ﷺ کے صحابہ) ابوذرؓ سے زیادہ کسی کو شوکت و عزت میں دزندار نہیں سمجھتے تھے اصل الفاظ یہ ہیں ما کنا نعد فی صحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم اکل شوکۃ منہ البلاذری ۵۶ ج ۵