حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
اور بداوت نہ پیدا ہو جائے ) اور سچ تو یہ ہے کہ شام کی چھاؤنی میں جب وہ تھے اس وقت بھی جب ان سے صبر نہ ہو سکتا تھا بھاگ بھاگ کر اپنے محبوب رسول پاک کے روضہ کی زیارت کو آتے رہتے تھے، خلیفہ وقت سے رخصت حاصل کرکے قبہ خضراء کی مجاورت کر کے اپنی مضطرب روح کے سکون کا سامان پیدا فرماتے رہتے تھے تو مدینہ سے اتنی نزدیک جگہ ربذہ میں رہ کر ان سے صبر کی کیا توقع ہو سکتی تھی۔ اعرابی اور دہقانی ہوجانے کا اندیشہ یہ بھی ایک مجذوبانہ لطیفہ تھا۔ راہ عشق کی رسوائیوں کا وہ بھی ایک نام نہاد پردہ تھا۔ حضرت ابوذرؓ سے بعض کتابوں میں یہ فقرہ جو منقول ہے کہ ہجرت کے بعد عثمان نے مجھے پھر اعرابی ( دہقانی) بنا دیا یہ بھی ایک جذبی لطیفہ ہی ہے البلاذری ۵۶ ج ۵ حقیقت یہ ہے کہ دجاجلہ و وضاعین الحمد للہ کہ اس قدر غبی اور بد حافظہ ہوتے ہیں کہ باتیں ضرور بناتے ہیں، لیکن اس درجہ خام اور جھوٹ ہوتا ہے، کہ چند جرعوں میں ان کی کل دروغ بافیوں کے تارپود بکھر جاتے ہیں ۱؎ فلعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ بہر کیف یہ معاملہ اس درجہ بدیہی اور صاف ہے کہ خود جو واقعات ------------------------------ ۱؎ یہ عجیب بات ہے کہ حضرت ابوذر اور حضرت عثمان کی باہمی سوء مزاجی کے قصوں کو بہ تدریج پچھلی تاریخوں میں بہ نسبت، ان کتابوں کے جو عہد صحابہ سے زیادہ قریب ہیں، خوب رنگین کیا گیا ہے الیعقوبی نے تو حضرت ابوذر کی طرف ایسی باتیں منسوب کی ہیں جن سے بجائے صحابی ہونے کے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان فرقوں میں سے ایک خاص فرقے کے عقائد رکھتے تھے جو بعد کو مسلمانوں میں پیدا ہوئے ان واقعات کے پڑھنے میں ہمیشہ یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کتاب کا مصنف کسی خاص فرقہ کا تو آدمی نہیں ہے خصوصًا ایسے فرقوں کا جو اپنے مدعا کے مطابق بات بنا لینے کو ثواب سمجھتے ہیں۔ اسی لئے علامہ ابن جریر طبری اور دوسرے مورخین نے لکھا ہے کہ یہ نہایت مکروہ باتیں ہیں جن کا ذکر بھی میں پسند نہیں کرتا ۶۷ ج ۵