حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
پاس آیا کریں گی۔ ۱؎ لیکن آپ کا اصرار بڑھتا رہا فرمایا کہ مجھے دنیا کی ضرورت نہیں، ( یعنی اونٹوں کی ضرورت نہیں ہے) مجھے آپ اجازت ہی دے دیں، اور وجہ بھی ظاہر تھی کہ آخر مسجد نبوی میں نماز کے لئے تو ضرور جاتے مدینہ اس زمانہ میں دار الخلافۃ الکبریٰ تھا، لاکھوں آدمیوں کا اجتماع رہتا تھا۔ جس وقت ابو ذرؓ نکلتے خواہ مخواہ لوگ پیچھے پڑ جاتے، جیسا کہ دنیا کی اس وقت بھی یہی عادت ہے کہ اس قسم کے بزرگوں کے پیچھے عوام بے تحاشہ دوڑتے پھرتے ہیں بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ مدینہ کی آبادی شام تک پھیل گئی ہے۔ اور اس حالت میں مجھے یہاں رہنے کا حکم نہیں۲؎ آخر حضرت عثمانؓ نے مجبور ہو کر فرمایا کہ۔ ان شئت تنحیت فکنت قریبًا اگر تم یہی چاہتے ہو تو پھر ( مدینہ ) کے کسی ناحیہ میں چلے جاؤ تا کہ قریب رہو۔ اس پر آپؓ نے فرمایا کہ۔ ------------------------------ ۱؎ طبقات ابن سعد۔ ۱۲ ۲؎ ابن جریر طبری میں آخری وجہ مذکور ہے۔ انساب الاشراف البلاذری میں گو بعض نہایت مکروہ واقعات نقل کئے ہیں، حضرت عثمانؓ جیسے حیا پرور انسان کی زبان کی طرف ایسی فحش گالیاں منسوب کی گئی ہیں جنھیں آج بھی کوئی شریف آدمی اپنی زبان سے نکال نہیں سکتا۔ لیکن غنیمت ہے کہ اسی کتاب میں مدینہ منورہ کے جلیل تابعی حضرت سعید ابن المسیبؒ کا قول بھی اسی میں درج ہو گیا ہے یعنی سعیدؒ نے اس کا انکار کیا کہ حضرت ابوذرؓ کا اخراج عمل میں آیا تھا انھوں نے فرمایا انا ابوذرخرج الیھا راغبًا فی سکنھا یعنی حضرت ابوذرؓ خود ربذہ میں رہنے کے لئے خود اپنی خواہش سے گئے تھے، ظاہر ہے کہ سعید بن المسیب سے زیادہ قوی شہادت اور کس کی ہو سکتی ہے۔