حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
ابوذرؓ کی برأت کے لئے یہ الفاظ خصوصًا جب وہ قسم کے ساتھ ہوں بہت کافی تھے لیکن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو عظمت و وقعت آپ کے دل میں تھی اس نے بس کرنے نہ دیا آپ کو فکر اور سخت فکر دامن گیر ہو گئی تھی، کہ حضرت عثمانؓ کے دل سے یہ خیال کسی طرح مٹ جائے۔ اس وقت کی بے چینی ٹھیک اس بےچینی کے مشابہ تھی کہ کسی کا محبوب کسی سے بدگمان ہوگیا ہو اور شیدائے جانباز سر پر پاؤں رکھ کر ہر ایک ممکن العمل ذرائع سے اس کی تشفی کرنا چاہتا ہو آبگینہ دل احباب کی نزاکتوں کا خیال کرکر کے مکرر الحاحوں اور التجاؤں سے اپنی صفائی پیش کر رہا ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے ہوئے ہیں اور ابوذرؓ کھڑے ہو کر ارشاد فرما رہے ہیں۔ ’’ آپ اگر مجھے حکم دیں کہ پالانوں کی لکڑیوں میں لٹک جاؤں تو میں سچ کہتا ہوں کہ اسی وقت لٹک جاؤں گا اور لٹکا رہوں گا جب تک آپ ہی اس کے چھوڑنے کا حکم نہ دیں۔‘‘۱؎ ( یعنی باوجودیکہ یہ ایک لغو کام ہوگا لیکن آپ کی خاطر و اطاعت مجھے اس درجہ منظور ہے کہ نفع و ضرر کا خیال دماغ میں آ ہی نہیں سکتا) اسی طرح اگر آپ فرمائیں کہ کھڑا ہوجا تو میں کبھی نہیں بیٹھوں گا جب تک آپ ہی حکم نہ دیں۔ ( فتح الباری ) مؤرخین کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھے اور ہاتھ پکڑ کر آپ کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ ولنعم ما قیل۔ ؏ ملتے ہی آنکھ رنج نہ تھا رشک غیر کا کیا جانے اس نگاہ نے سمجھا دیا مجھے ------------------------------ (بقیہ سلسلہ گذشتہ ) اسی قدر تھا جس قدر حضرت عثمانؓ کو کہ کچھ لوگ آمادۂ فساد ہیں، اور اس علم کو علم نہیں کہہ سکتے، ماخوذ از طبقات و فتح۔ ۱؎ یہ تمام واقعات طبقات ابن سعد سے ماخوذ ہیں۔