حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
یہ سنتے ہی آپ کو جلال آ گیا۔ اسی وقت آپ اٹھے اور اپنے قبیلے کے چند آدمیوں کو لے کر سیدھے آستانہ خلافت کی طرف روانہ ہو گئے۔ آپ پر اس کیفیت کے سننے سے ایک ایسی کیفیت طاری ہو گئی تھی کہ گویا مدہوش ہو رہے تھے۔ حتیٰ کہ جس دروازہ سے مکان خلافت میں جانے کی کسی کو اجازت نہ تھی آپ درّہ لئے ہوئے اسی میں گھس گئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب آپ کو اس طرح آتے ہوئے دیکھا، تو یکا یک آپ پر خوف طاری ہوا۔ ۱؎ جو خطرہ ابھی تک ظن و گمان کی حد تک محدود تھا اس نے یقین کی شکل اختیار کی۔ لیکن فطری وقار و تمکنت نے بظاہر آپ کی حالت میں کوئی تغیر پیدا نہیں کیا جس طرح جلوس فرما تھے اسی طرح بیٹھے رہے۔ اتنے میں حضرت ابوذرؓ قریب پہنچ گئے۔ اور سامنے آ کر فرمایا ’’ السلام علیکم ‘‘ اور قبل اس کے کہ کچھ مزاج پرسی کریں گھبرائی ہوئی آواز میں آپ نے کہا۔ احسبتنی منھم یا امیر المؤمنین کیا آپ مجھے بھی ان لوگوں میں گمان کرتے ہیں ( یعنی مفسدوں میں ) اے مسلمانوں کے امیر! اور اس کے بعد اس زبان نے جس سے زیادہ سچی زبان آسمانوں اور زمین کے درمیان اور کوئی نہ تھی اس طرح اپنی برأت شروع کی۔ ’’ قسم خدا کی نہ میں ان لوگوں میں ہوں، نہ ان کو جانتا ہوں کہ یہ کون لوگ ہیں ان کی علامت تو گُھٹے ہوئے سر ہیں وہ دین سے اس طرح دور ہوں گے جس طرح شکار کو تیر توڑ کر نکالا جاتا ہے ۲؎ ------------------------------ ۱؎ طبقات ۱۲ ۲؎ چوں کہ تفصیلی طور پر آپ کو بھی اس کا علم نہ تھا صرف شام میں ایک دفعہ کچھ لوگ آپ کے پاس آئے تھے اور وہ بھی خدا جانے صحیح ہے یا نہیں۔ بہرحال آپ کا علم اس فتنہ کے متعلق صرف ( باقی آیندہ صفحہ پر )