حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
زبان مبارک سے سنے ہوئے کلمات کی خلاف ورزی کرے۔ یہ ہو نہیں سکتا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کا یہ عقیدہ جز ایمان تھا کہ مضرت وہی مضرت ہے جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مضرت و نقصان سمجھا ہو۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کی امید ہی بوالہواسی ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جن کی آنکھوں نے آفتاب رسالت کے سامنے مصالح وقتیہ کی چراغوں کو کبھی نہیں دیکھا، اور نہ دیکھنا چاہا۔ ان کی زبان میں جب کبھی جنبش ہوئی تو انھیں لفظوں کے ساتھ ہوئی۔ ’’ کہ مجھ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عہد لیا ہے اور میں اس پر صبر کے ساتھ قائم ہوں اور رہوں گا‘‘ ۱؎ اور آخر یہی ہوا کہ صرف اپنے آقا کے پاس عہد میں، سمجھ کر اور جان کر ایک جلیل القدر رئیس عرب نے بصد بیکسی قرآن کے اوراق پر اپنے پاک لہو کو بہا دیا اور خوشی سے بہا دیا فرضی اللہ عنہ رفتیم باغمت دل پر خوں گزاشتیم جان را بصیدگاہ تو درخوں گزاشتیم ہوا و ہوس کے پھندوں میں گرفتار ہونے والوں کا کیا جواب ہے جو عشق و سرمستی کی چاشنیوں سے محض نابلد ہو، وہ کیا جانے کہ کیا کرنا چاہئے تھا؛ اور کیا نہیں کرنا چاہئے تھا جس نے اپنے ابتدائے اسلام سے ہمیشہ اپنا طرائے امتیاز: اندیشہ زیاں و غم سود شستہ ایم رکھا ہو، سمجھ میں نہیں آتا کہ پھر اس کے مقابلہ میں نفع و ضرر کی داستانوں کو دہرا کر بیہودہ ہذیانوں سے اپنے اوراق سیاہ کرنے کے کیا معنی ہیں؟ ------------------------------ ۱؎ ترمذی