حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
ابھارنے کی کوشش میں سرگرم تھا۔ اس فتنے کی مفصل کیفیت القاسم میں بعنوان ’’ یہودیوں کی زبردست سازش اسلام میں‘‘ کے عنوان سے مدت ہوئی فقیر ہی لکھ چکا ہے۔ اس لئے میں اس کو یہاں پھیلانا نہیں چاہتا۔ تفصیلی طور پر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس فتنے کا گو علم اس وقت نہ ہوا۔ لیکن اجمالی طور پر آپ کو اتنا ضرور معلوم ہو گیا تھا کہ مسلمانوں کی ایک جماعت ہماری طرف سے بددل و بد گمان ہو رہی ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ جس وقت آپ کو یہ علم ہوا تھا یقینًا اسی وقت آپ خلافت سے ہو سکتا تھا کہ دست بردار ہو جاتے لیکن خدا کی مرضی یہ نہ تھی خود سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس محبوب صحابی اور عزیز داماد کو وصیت کی تھی۔ ’’ اے عثمان شاید خداوند تعالیٰ تم کو کوئی قمیص پہنائیں گے۔ پس اگر منافقین ( یعنی عبداللہ بن سبا و اتباعہ ) تیرے بدن سے اس قمیص کو اتارنا چاہیں تو دیکھو تم خود اس کو کبھی نہ اتارنا۔ حتیٰ کہ مجھ سے آکر ملو۔‘‘ ۱؎ ظاہر ہے کہ اس قمیص سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خلافت تھی۔ اس صورت حال میں ان کی کیا مجال تھی کہ اس وصیت نبویہ کے بعد بھی آپ عبد اللہ بن سبا کی ان ریشہ دوانیوں سے تنگ آ کر فقط اپنی زندگی کو مطمئن بنانے کے لئے سریر خلافت چھوڑ دیتے، دیوانے ہیں جو ایسا سمجھتے ہیں۔ آسمان زمیں پر گر جاتے یا زمیں پھٹ کر دنیا کو نگل جاتی اس وقت بھی عثمانؓ جیسے مطیع و فرماں بردار غلام سے یہ ناممکن تھا کہ اپنے آقا صلوات اللہ علیہ وسلامہ کی ------------------------------ ۱؎ ترمذی