حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
کوئی چھوٹا آدمی کسی بڑے آدمی پر نا سمجھی کے ساتھ اعتراض کرتا ہے، اور پھر بطور پوچھنے کے نہیں بلکہ الزام دینے کے لئے، تو یقینًا آدمی بے اختیار ہو جاتا ہے خصوصًا جب اس میں مجذوبیت کی بھی کچھ لٹک جب پائی جاتی ہو؛ نتیجہ یہ ہوا کہ جواب ۱؎ وغیرہ تو کیا دیتے ہیں وہیں بھرے دربار میں ------------------------------ ۱؎ دربار عثمانی میں جو گفتگو ہوئی بعضوں نے تو اس کی وہی تفصیل بیان کی ہے جسے اصل کتاب میں میں نے درج کیا ہے۔ لیکن کامل ابن اثیر وغیرہ میں اسی گفتگو کو جس انداز سے نقل کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ نے شام سے واپس بلانے کے بعد حضرت ابوذرؓ سے فرمایا کہ شام کے لوگ تمھاری زبان کی تندی و تیزی کے شاکی ہیں، اس کے بعد بطور فہمائش کے حضرت عثمانؓ نے کہا کہ ابوذرؓ! ہم پر ذمہ داری جو کچھ عاید ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خود جو باتیں ہم پر واجب ہیں انھیں ادا کریں، اور رعیت کو بھی کدوکاش اور اعمال میں اعتدال و اقتصاد کی دعوت دیں، لیکن ہم پر یہ تو واجب نہیں ہے کہ لوگوں کو ترک دنیا اور زہد پر مجبور کریں۔ یہ سن کر بجائے جواب دینے کے حضرت ابوذرؓ نے زور زور سے کہنا شروع کیا ’’ ہرگز ہرگز امیروں سے راضی نہ ہونا چاہئے جب تک کہ نیک کاموں پر وہ اپنی دولت نہ خرچ کریں۔ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش نہ آئیں، بھائیوں کی خبرگیری نہ کریں، اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی نہ کریں‘‘ دراصل یہی جواب تھا جو حضرت عثمانؓ کو وہ دے رہے تھے کہ میں ترک دنیا پر کب لوگوں کو مجبور کرتا ہوں بلکہ امراء سے غرباء کے حقوق مانگتا ہوں۔ لکھا ہے کہ اسی موقع پر کعب احبار کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا کہ جس نے فرض ادا کر دیا یعنی زکٰوۃ ادا کردی بس اس پر جو بات فرض تھی اس سے وہ سبکدوش ہوگیا۔ یہی نقطہ نظر کا ابوذرؓ اور دوسروں میں فرق تھا۔ اسی پر ان کو غصہ آگیا۔ اور کعب احبار کی طرف یہ کہتے ہوئے جھپٹے کہ ’’ ابے تو کون ہے جو یہاں اور اس مقام پر آ کر بول رہا ہے‘‘ اسی کے ساتھ ڈنڈا بھی رسید کیا جس سے کعب کا سر کھل گیا ۱۴۴ ابن اثیر ج ۳۔