حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
حضرت ابوذرؓ نے سونٹا اٹھا کر کہا کہ ’’ او یہودی ۱؎ یہ کیا باتیں بناتا ہے۔‘‘ کعب احبار نے دیکھا، کہ معاملہ بگڑتا ہوا نظر آتا ہے کہیں حضرت ابوذرؓ سونٹا رسید نہ کر دیں۔ بیچارے بھاگے۔ حضرت ابوذرؓ بھی کب چھوڑنے والے تھے غصہ بھڑکا ہوا تھا، یہ بھی لاٹھی لئے ہوئے ان کے پیچھے روانہ ہوئے وہ بھاگتے جاتے تھے، اور یہ کچھ برا بھلا کہتے ہوئے تعاقب کرنے لگے اخیر میں تھک کر کعب احبار حضرت عثمانؓ کی طرف بڑھے اور اپنے کو ان کی پشت مبارک پر ڈال دیا۔ مگر حضرت ابوذرؓ وہاں بھی پہنچ ہی گئے کہ گو حضرت عثمانؓ کو وہ خلیفہ ضرور سمجھتے تھے لیکن اپنا بھائی اور ساتھی بھی تو خیال کرتے تھے غرض پہنچ کر آپ نے ایک سونٹا چلا ہی دیا۔ عام روایت تو یہی ہے کہ وہ مجذوبی لاٹھی کعب ہی پر پڑی لیکن بعض لوگوں کا بیان ہے کہ اچٹ کر حضرت عثمانؓ کی پشت مبارک پر جا کر ٹھیر گئی۔ ۲؎ ------------------------------ ۱؎ ابوذرؓ کی زبان سے غصہ میں یہ لفظ نکل گیا ہوگا اور ایک مجذوب آدمی اس میں معذور ہے۔ ابن خلدون میں ہے کہ آپ نے ’’ او یہودیہ کے بیٹے‘‘ کہا طبری میں بجائے ’’ عصا ‘‘ یعنی لاٹھی کے لکھا ہے کہ آپ نے اپنے ’’محجن ‘‘ سے کعب پر حملہ کیا، محجن بھی ایک قسم کی لاٹھی ہی ہوتی ہے جس کی نوک پر آخر میں آنکس کے مانند لوہے کی کوئی چیز لگی رہتی ہے۔ ۲؎ یہ قصہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے میں نے تفسیر روح المعانی جلد ۴ ۲۰۰ سے یہاں نقل کیا ہے، ابن خلدون نے خدا جانے کہاں سے نقل کیا ہے کہ کعب احبار کے بھی چوٹ آئی اور سر کھل گیا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس زخم کو مانگ لیا یعنی اپنی خاطر سے معاف کرا دیا۔ انساب الاشراف میں البلاذری نے بھی کعب احبار پر حضرت ابوذرؓ کے اس جلالی طرز عمل کا ذکر کیا ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ ’’ او یہودی! کیا ہم لوگوں کو تو ہمارا دین سکھاتا ہے‘‘ اگر یہ صحیح ہے تو اسی فقرے میں کعب احبار کے تمام اعتراضوں کا جواب مستور تھا دیکھو البلاذری مطبوعہ یہودی یونیورسٹی فلسطین ۶۵ ج ۵