حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
پڑھ آئے ہو کہ مطلقًا مال اندوزی کے وہ مخالف ہی کب تھے۔ اور یہ کل اعتراضات اس پر پڑ سکتے ہیں جیساکہ ظاہر ہے آخر وسعت و فراخی کا مدار کیا صرف اس پر ہے کہ گھر میں سونا چاندی ہو، زمین، اونٹ، جانور اموال تجارت وغیرہ سے وسعت و فراخی نہیں حاصل ہوتی، پھر اگر سونے چاندی کے دفینہ بنانے کی ممانعت میں ایسی سختی کیا پیدا ہوتی ہے، جس سے اسلام کے اعتدالی مسلک پر حرف آ سکتا ہے۔ اسی طرح کیا میراث صرف زرو سیم ہی کے ساتھ مخصوص ہے اور مالوں میں وراثت کیا جاری نہیں ہوتی؟ حضرت ابوذرؓ کا اصرار جو کچھ بھی تھا وہ محض چاندی سونے کی حد تک محدود تھا، اور اس کا منشاء بھی وہی تھا، کہ یہ دونوں چیزیں بیکار رکھ چھوڑنے کی نہیں ہیں اور اس میں ایسی کونسی بات ہے جسے ہم فطرت اسلامی پر ظلم قرار دے سکتے ہیں۔ بہرحال میں بتا چکا ہوں کہ حضرت ابوذرؓ تدین و تمدن دونوں اعتبار سے کنز کو غیر مفید سمجھتے تھے اور اس پر آیت قرآنیہ احادیث نبویہ نیز اصول اسلامیہ سے روشنی ڈالتے تھے، لیکن کعب احبار نے مسئلہ کی لم کو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی منشاء کے مواقف نہ سمجھ کر، اور یہ خیال کر کے کہ یہ مطلقًا مال جمع کرنے کو حرام کہتے ہیں، اعتراضات کر دئیے اور اس پر طرہ یہ کہ یہ بیچارے صحابی بھی نہ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایمان لائے تھے اور اعتراض بھی کیا تو اس شخص پر جس پر عام صحابیوں کو بھی نکتہ چینی اور اعتراض کی ہمت مشکل ہی سے ہوتی تھی۔ الغرض مجموعی طور سے یہاں پر کچھ ایسی باتیں جمع ہو گئیں کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غصہ تھم نہ سکا اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب