حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
’’ آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے تمام مذہبوں میں سب سے زیادہ آسان و معتدل شریعت مذہب اسلام کی ہے۔ اسلام کا ہر قانون انسانی قوتوں کے موافق اور ان کی فطرتوں کے مطابق ہے اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ موسوی شریعت تمام شریعتوں میں سخت گیر اور کڑی ہے۔ پھر جب موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بھی مال جمع کرنے کی ممانعت نہیں ہے جب یہودیوں کو بھی اس کا حکم نہیں دیا گیا کہ وہ اپنی ساری دولت خدا کی راہ میں لٹا دیں تو اسلام کی معتدل و متوسط شریعت میں یہ سخت قانون کس طرح ہو سکتا ہے؟ کہ جو کچھ ضرورت سے زیادہ بچ جائے اسے خدا کی راہ میں لٹا دیا جائے ورنہ قیامت کے دن وہ انگارے بن کر لپٹیں گے۔ ‘‘ ایک اور معارضہ بھی کتابوں میں منقول ہے، انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی کعب احبار کی منطقی دماغ کا نتیجہ ہے، بہر کیف اس کا خلاصہ یہ ہے؛ ’’ کہ جب ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنی ساری دولت خدا کی راہ میں لٹا کر مرے، اور اپنے پاس کچھ اندوختہ نہ چھوڑے، تو پھر اللہ تعالیٰ نے میراث کی آیتیں کیوں نازل فرمائیں جب میت کے لئے کچھ چھوڑ کر مرنا جائز ہی نہیں، تو وارثوں پر کیا چیز تقسیم ہوگی، الغرض قرآن کی اقتضاءالنص سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کل مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا ضروری نہیں ہے۔‘‘۱؎ ایک تو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جذب غالب تھا۔ دوسرے دونوں بحثیں قریب قریب ان کے مدعا سے محض بے تعلق تھیں، کیوں کہ ابھی تم ------------------------------ ۱؎ روح المعانی ص ۳۰۰ ج ۴۔