حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
ان کے سوا یہ تیسری صورت کہ گھر میں یوں ہی ڈال دیا جائے، یعنی ’’ کنز ‘‘ بنا کر سونے چاندی کو رکھنا اس کی اجازت نہیں دی جائے گی تو بتایا جائے کہ اس میں کیا ناموزونیت ہے۔ اور کون کہہ سکتا ہے کہ ان کا یہ دعویٰ محض بے سروپا تھا، خصوصًا جب اس تفسیر کے بعد نہ نسخ ہی کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ تخصیص النص بالخبر الواحد کی خرابی میں مبتلا ہونا پڑتا ہے، نہ صرف دینی حیثیت سے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اسلام کے گزشتۂ بالا اصول کلیہ کو سامنے رکھ لینے کے بعد، معاشی حیثیت سے بھی اس پر نکتہ چینی کی جرأت بمشکل ہی ہوسکتی ہے علی الخصوص جب طبرانی کی اس روایت کو بھی ہم ملا لیتے ہیں تو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معذوری اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔ قصّہ یہ ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک چھوٹا سا اسلامی مدرسہ صُفّہ کے نام سے جو قائم تھا غریب و محتاج لوگ جو مسلمان ہوتے تھے وہ اسی میں داخل ہو جاتے تھے۔ عام مسلمان ان کی مدد کرتے اور کھانے پینے کا سامان حسب وسعت کردیا کرتے تھے اتفاق سے اس میں ایک طالب العلم کا انتقال ہوگیا۔ غسل دینے کے لئے جب ان کا کپڑا اتارا گیا تو ان کی لنگی سے ایک اشرفی برآمد ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا علم ہوا تو فرمایا ایک داغنے والا آلہ ہے اسی کے بعد اور طالب علم کا انتقال ہوا۔ ان کی بھی جب تلاشی لی گئی تو اشرفیاں برآمد ہوئیں۔ آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا یہ داغنے کے دو آلے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ محدثین و شراح حدیث اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ صُفّہ کے طلبا عمومًا لوگوں پر اپنی مسکنت اور غربت ظاہر کرتے تھے لیکن جب مرنے کے بعد ان سے نقد برآمد ہوا تو اس سے ان لوگوں کی ریاکاری ثابت ہوئی