حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
دمشق میں امیر معاویہ نے اپنی مشہور کوٹھی یعنی’’ الخضراء‘‘ کی تعمیر شروع کی تو حضرت ابوذرؓ حاضر ہوئے اور امیر معاویہؓ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے تم جو یہ محل تیار کر رہے ہو، اگر خدا کے مال سے تیار کر رہے ہو تو ظاہر ہے کہ یہ خیانت ہے، اور اگر اپنے ذاتی مال سے بنوا رہے ہو؛ تو پھر یہ اسراف اور فضول خرچی ہے، کہتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ کے پاس خاموشی کے سوا اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ ۱؎ یہ بھی لکھا ہے کہ بعض موقعوں پر امیرمعاویہؓ کی زبان سے بیت المال کے خزانے کے متعلق یہ تعبیر نکل گئی کہ یہ تو خدا کا مال ہے حضرت ابوذرؓ کو خبر ہوئی، تشریف لائے۔ امیر معاویہؓ سے پوچھا کہ کیوں جی تم مسلمانوں کے مال کو خدا کا مال کیوں کہتے ہو، امیر معاویہؓ نے فرمایا! ابوذرؓ خدا تم پر رحم کرے۔ بھائی! کیا ہم لوگ اللہ کے عباد اور اس کے بندے نہیں ہیں۔ اور مال جس کے پاس بھی جو کچھ ہے وہ اللہ کا مال نہیں ہے تو کس کا ہے مگر حضرت ابوذرؓ نے یہ سننے کے بعد بھی اصرار کے ساتھ فرمایا کہ ایسا نہ کہا کرو ( بلکہ مسلمانوں کا مال) ہی اس کو کہو کہتے ہیں کہ امیر معاویہؓ نے فرمایا کہ اچھا آیندہ میں اس کو مال المسلمین ہی کہا کروں گا۔ ۲؎ الغرض اس قسم کی باتیں خصوصًا کنز والے مسئلہ نے رفتہ رفتہ اتنی اہمیت حاصل کر لی کہ حکومت دمشق اس سے متاثر ہوئی یعنی حضرت معاویہؓ کو مجبورًا اس میں دخل دینے کی ضرورت ہوئی۔ وہ بھی آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہی تھے خود صاحب الرائے و الاجتہاد تھے انھوں نے حضرت ابوذرؓ کو بلوایا اور پوچھا کہ آپ نے یہ مسئلہ کہاں سے نکالا ہے۔ حضرت ابوذرؓ نے قرآن کی مندرجہ بالا آیت پڑھ دی، مناظرہ کا سلسلہ جس طرح شروع ہوا۔ اس کے ------------------------------ ۱؎ انساب الاشراف بلاذری ص ٦۵ ج ۵ ۲؎ کامل ابن اثیر ص ۴۳ ج ۳