حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
لعناق یاتی رجلا من المسلمین خیر لہ من احد ذھبا یترکہ وراءہ ( مسند احمد ۱۸۱ ) قطعًا ایک بکری جو کسی مسلمان کو حاصل ہو یہ اس سے بہتر ہے کہ احد پہاڑ کے برابر اس کے پاس سونا ہو پھر اپنے بعد اس کو چھوڑ جائے۔ الفاظ حدیث بجنسہ میں نے نقل کر دیے ہیں۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کا مفہوم وہی ہے جو میں نے ترجمہ میں درج کیا ہے۔ جس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ بجائے ’’ سونے‘‘ کے آدمی کے لئے بکری کا ایک بچہ زیادہ مفید ہے، یعنی وہ ایک بڑھنے اور بڑھانے والی چیز ہے، خصوصًا عرب میں آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ اونٹ اور بکریاں ہی تھیں، اس لئے آپ نے بکری کا ذکر کیا۔ ورنہ بہ ظاہر مطلب اس کا یہی ہے کہ زر کو آمدنی پیدا کرنے والی نفع بخش چیزوں میں لگا دینا زیادہ مفید ہے، بہ نسبت اس بات کے کہ زر کو زر ہی کی شکل میں مقید کرکے کہیں دفن کر دیا جائے، چونکہ مسلمانوں کے معاش کا ذریعہ یا تو اس قسم کی جائز آمدنیاں ہیں یا وہ اموال ہیں جو بذریعہ جہاد حاصل ہوئے ہوں شاید اسی کی طرف اسی حدیث کے ان آخری الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذرؓ کو پھر مخاطب کر کے فرمایا۔ اعقل یا اباذر ما اقول ان الخیل فی نواصیھا البرکۃ الی یوم القیامۃ ان الخیل فی نواصیھا الخیر۔ سمجھو اس کو اے ابوذر جو میں کہتا ہوں کہ گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک کے لئے برکت رکھی گئی ہے، گھوڑوں کی پیشانی میں برکت ہے۔ ارباب حدیث جانتے ہیں کہ اس کا مطلب بجز اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ خیر اور آمدنی کا بڑا ذریعہ گھوڑا ہے یعنی مسلمان اس وقت تک فارغ البال ہیں جب تک وہ جہاد کرتے رہیں گے۔ جس کی تعبیر گھوڑے سے