حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ |
طبوعہ ر |
|
ما من صاحب ابل ولا بقر ولا غنم لا یؤدی زکوٰتھا الا جاءت یوم القیامہ اعظم ما کانت واسمنہ تنظحہ بقرونھا و تطؤباخفافھا کلما نفذت اٰخرھا عادت اولھا حتیٰ یقضی بین الناس۔ ( مسند احمد ) دن اس کے یہ جانور لائے جائیں گے دنیا میں جس قدر بڑے ہوں گے قیامت کے دن اس سے زیادہ بڑے کر کے لائے جائیں گے اسی طرح دنیا میں جس قدر موٹے ہوں گے اس سے زیادہ موٹے کر کے قیامت کے دن لائے جائیں گے اور پھر اپنے مالک کو سینگ ماریں گے اور پاؤں سے روندیں گے جب تک حساب و کتاب کا معاملہ ختم نہ ہوگا یہ اسی طرح کرتے رہیں گے جب ایک قطار ختم ہو جائے گی دوسری لوٹے گی۔ اس روایت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مویشیوں کی جب زکوٰۃ ادا کر دی جائے تو پھر ان کے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور یہ بالکل نا ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اجازت دیں اسی اجازت کے خود حضرت ابوذرؓ راوی ہوں اور پھر اس کی مخالفت کریں۔ الغرض حضرت ابوذرؓ کو اجازت تھی کہ زکوٰۃ نکالنے کے بعد آدمی جس قدر اونٹ گائے وغیرہ رکھ سکتا ہو رکھے۔ اس کے لئے کوئی وعید نہیں۔ مسند احمد میں حضرت ابوذرؓ سے ایک اور روایت ہے جس سے میری اس رائے کی تائید ہوتی ہے کہ آپ صرف سونا اور چاندی کو سونا اور چاندی کی شکل میں جو بھی چیز ہو اس کو بلا وجہ گاڑنے یا جمع کرنے کے مخالف تھے۔ حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن فرمایا یا اباذر اعقل ما اقول لک اے ابوذر! سمجھ اس کو جو میں کہتا ہوں